آج کالم لکھنے کا موڑ نہیں ہے۔ ایک مایوسی کی سی کیفیت ہے کہ کیا لکھا جائے اور کیوں لکھا جائے۔ اور پھر لکھنے سے کیا فرق پڑے گا۔ کالم لکھنا بھی صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہے اور کبھی کیکر پر انگور چڑھانے جیسی تکلیف دہ صورت حال۔ ان کالموں میں روز نوحہ خوانی ہوتی ہے، روز سانحوں اور حادثوں پر اشک بہائے جاتے ہیں۔ بے حس حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ نالہ و فغاں کب کسی اہل اقتدار اور اہل اختیار کی سنگ سماعت میں اترتا ہے۔ میرے سینئر محترم کالم نگار پچاس پچاس برسوں سے لکھ رہے ہیں لیکن افسوس معاشرے کی مجموعی صورتحال اور حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے:
تمام عمر کی نغمہ گری کے بعد کھلا
یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ جیسا ہے
کالم نگار خلق خدا سے جڑا ہوا، ان کے مسائل اور عذابوں سے واقف، حکمرانوں کی بے حسی پر پیہم کڑھتا ہے۔ خون جگر جلاتا ہے، ایک بہتر اور انصاف پسند معاشرے کے خواب دیکھتا ہے اور اسی خواب کی تعبیر ڈھونڈنے کے عمل میں کالم لکھتا ہے۔ مگر اس کے لکھے ہوئے الفاظ بے حسی کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتے ہیں، ایک رائیگانی کے عمل سے کالم نگار روز گزرتا ہے کہ زندگی میں اس کے حصے میں اسی چکی کی مشقت لکھی ہے۔ اس کے حصے میں یہی کام آیا ہے کہ وہ تاریخ کی راہ گزر پر بیٹھ کر اس وقت کے نااہل اور بے ضمیر حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کرے۔ حکمرانوں کے نام پر پاکستان میں جو مخلوق پائی جاتی ہے، ان کا تعلق زمین اور زمین والوں سے نہیں ہوتا۔ مفادات کا اسیر یہ بے حس قبیلہ لگتا ہے کہ مریخ سے آ کر پاکستانیوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ چارہ گروں کے نام پر پاکستانیوں کی چارہ گری کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت میں نہ ہوئی۔ دعوے خواب، وعدے اونچی اونچی بڑھکیں۔ لگا کر اقتدار میں آتے جب شہر اقتدار میں داخل ہوتے ہیں، تو ان کا ڈی این اے تبدیل ہو جاتا ہے، ان کے مفادات، سیاسی مصلحتیں، سمجھوتے، ہوس زر قرابت داریاں لالچ منافقتیں ان کی رگوں میں لہو کی جگہ دوڑتے ہیں۔ بظاہر انسان نظر آنے والی یہ مخلوق دراصل انسان رہتی نہیں۔ کیونکہ انسان تو انسانیت سے عبارت ہے۔ میں اپنے ملک پر مسلط بے حس اہل اقتدار کو دیکھتی ہوں، تو سوچتی ہوں کہ نجانے ہمارے کس جرم کی سزا کے طور پر انہیں ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے، کپتان کی حکمرانی میں یہاں قول و فعل میں تضاد کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے۔ لوگوں کو کپتان کی گزشتہ تقریریں اور کنٹینر پر کی گئی باتیں بھولی تھوڑی ہیں اور کم بخت یہ جدید ٹیکنالوجی۔ بھولنے بھی کہاں دیتی ہے، ادھر پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں ادھر ایک پرانی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے۔ کپتان فرما رہے ہیں میرے پاکستانیو!جب پٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو سمجھ لینا حکمران چور ہیں، اہل اقتدار کی فطرت میں ہی بے حسی ہوتی ہے، مگر جس قدر بے حس ہمارے سیاستدان ہیں، تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ دوائوں کی قیمتیں 269فیصد تک بڑھا کر حکومت نے دوائیں غریب تو کیا متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی دور کر دیں۔ اس قدر عوام کش فیصلے پر ہاہا کار مچی تو مشیر صحت قیمتیں بڑھانے کے جواز کے طور پر دور کی کوڑی لائے۔ فرماتے ہیں قیمتیں اس لئے بڑھائی ہیں کہ دوائیں مارکیٹ میں دستیاب رہیں۔ ایسی نااہلی اور بے حسی پر سر پیٹ لینے کو دل کرتا ہے۔
آپ نے پٹرول کی قیمتیں اس لئے بڑھائیں کہ پٹرول ملتا رہے۔ آٹے کی قیمتیں اس لئے بڑھائیں کہ آٹا دستیاب رہے۔ اپنی نااہلی کا یہ جواز آج تک نالائق ترین حکومت بھی پیش نہیں کر سکی، اس حکومت نے آ کر کینسر کے ہزاروں مریضوں کی مفت دوائیں بند کر دیں اور پہلی بار کینسر کے مریضوں کو سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنا پڑا۔ یہ بھی اس حکومت کا ہی اعزاز ہے اور کینسر کے مریض بھی سڑکوں پر احتجاج کرتے پائے گئے۔ گزشتہ حکومت میں سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کے مفت علاج کا اور کچھ نہ کچھ مفت دوائوں کا سلسلہ موجود تھا۔ آئیڈیل صورت حال تو یقینا نہیں تھی مگر اس حکومت نے آ کر سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کے لئے مفت دوائوں کا سلسلہ بھی بند کر دیا اور اب جان بچانے والی 94دوائیں 9سے 262فیصد تک مہنگی کر کے کپتان کی حکومت نے دوائوں کو باقاعدہ طور پر غریبوں سے دور رکھنے کا اہتمام کیا ہے اور دوائیں بڑھا کر اپنی کارکردگی پر پھولے نہیں سما رہے کہ اسی طرح بس اسی طرح دوائیں مارکیٹ میں موجود رہیں گی۔
یہ جو اہل اقتدار اور اہل اختیار ہیں یہ بظاہر انسانوں جیسے نظر آتے ہیں۔ ورنہ ان کے اندر انسانیت اور احساس کی جگہ ایک خوفناک بے حسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ان کے جسموں میں جہاں دل دھڑکتا ہے۔ وہاں ایک پتھر رکھا ہوتا ہے؟