Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ajeeb Dard Hai Jis Ki Dawa Hai Tanhai

Ajeeb Dard Hai Jis Ki Dawa Hai Tanhai

کل مریم ارشد کا فون آیا تو بہت اداس تھی کہ بیٹا اتنے عرصے کے بعد برطانیہ سے گھر آیا مگر کرونا وائرس کے حوالے سے حفاظتی تدابیر کے تحت سخت ہدایات تھیں کہ دور سے ہی ملنا ہے۔ ماں ظاہر ہے بیٹے کو اتنے عرصے کے بعد دیکھ کر گلے لگانا چاہتی تھی مگر وباء کے موسموں نے ماں کی محبت کے اس بے ساختہ اظہار پر پابندی لگا دی تھی۔ سو دور سے ہی بیٹے کو دیکھا اور اس کی بلائیں لیں۔

مریم ارشد، میری بہت عزیز دوست ہے۔ اس سے دوستی کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی مری صحافت کی زندگی۔ مریم بہت حساس روح ہے جو ہر شے کو شدت کے ساتھ گہرائی میں جا کر محسوس کرتی ہے۔ ایک معاصر اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور بہت خوب صورت مصوری کرتی ہیں۔ اس بات پر سخت اداس تھی کہ احمد اتنے دنوں کے بعد گھر آیا تو اس سے دور سے ملنا بہت عجیب لگا۔ احمد گھر آ گیا ہے مگر اس کو ابھی چند روز گھر والوں سے میل جول سے پرہیز کرنا ہے۔ کرونا وائرس کا ٹیسٹ بھی ہو گا اور پھر کم از کم 14روز تک علیحدہ رہنا ہو گا۔ بیرون ملک سے آنے والے تمام افراد کو ہی حفاظتی تدابیر کرنا ہوں گی۔

وبا کے موسموں میں انسان کا علاج اسے انسانوں سے دور اس کی ازلی تنہائی میں رکھ کر کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ کاروبارِ حیات اور سماج سے کاٹ کر اسے کچھ روز کے لیے تنہائی کے سپرد کر دینے کو عام اصطلاح میں قرنطینہ کہا جاتا ہے۔ اسے انگریزی میں Quarantine کہتے ہیں۔ لوگ عموماً اسے کورنٹائن بولتے ہیں جبکہ اس کا صحیح تلفظ کورٹین ہے۔ یہ لفظ اطالوی زبان کا ہے۔ جسے انگریزی نے لے پالک بچے کی طرح اپنا بنا لیا۔ اب اسے انگریزی کا لفظ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے چالیس دن! یعنی بیماری کے پھیلائو کو روکنے کے لیے لوگوں کو چالیس روز تک بالکل علیحدہ رکھا جائے۔

کورٹین میں ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جن پر شبہ ہو کہ ان کا میل ملاپ ایسے افراد سے ہوا ہے جو وبائی بیماری کا شکار تھے۔ یاد رہے کہ کورٹین میں 14 روز تک رکھے جانے والے افراد بیمار نہیں ہوتے بس حفاظتی تدبیر کے تحت انہیں اتنے روز تک علیحدہ رکھا جاتا ہے جتنے روز میں وائرس اپنا لائف سائیکل پورا کرتا ہے۔

انسانوں سے انسانوں کو لگنے والی وبائی امراض کی تاریخ جتنی پرانی ہے اتنی ہی پرانی تاریخ قرنطینہ کی ہے۔ جب کوئی وبائی بیماری پھیلتی تو سب سے پہلی اور بنیادی تدبیر یہی کی جاتی کہ دور دراز ملکوں سے بحری جہازوں کے ذریعے آنے والے تاجروں اور دوسرے مسافروں کو وہیں روک لیا جاتا اور عام افراد سے میل جول پر پابندی لگا دی جاتی۔ اس کا دورانیہ چالیس روز یا پھر اس سے کم ہوتا۔ قرنطینہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ پہلی بار وباء کے پھیلائو کو روکنے کی یہ تدبیر، 14ویں صدی میں اپنائی گئی تھی۔

تاریخ انسانی میں طاعون اور انفلوئنرا کی صورت میں وبائی امراض پھوٹتے رہے ہیں اور کسی ایک ملک کی سرحدوں کے اندر ہی پھیلنے والے وبائی مرض کو انگریزی میں Epidemic (ایپی ڈیمک) کہتے ہیں اور وہ وبائی مرض جو ایک ملک سے پھیلتا ہوا دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی پہنچ جائے اور یوں ایک طرح سے پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے۔ اسے انگریزی زبان میں Pandemic(پین ڈیمک) کہا جاتا ہے کرونا وائرس بھی ایک ایسا ہی وبائی مرض ہے جو چین سے چلا اور اب کم و بیش پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس کی شدت کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ۔ چین، ایران اور اٹلی اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ جن ملکوں نے بروقت حفاظتی اقدامات کر لیے۔ سکول، کالج، ادارے بند کیے۔ ہجوم سے پرہیز کیا وہاں یہ کرونا وائرس قابو میں رہا۔

پہلی جنگ عظیم میں سپینش فلو کی وبا یورپ سے امریکہ پہنچی تھی۔ اس وقت کئی امریکی ریاستوں نے فوری طور پر ہجوم کے اکٹھا ہونے، لوگوں کے ملنے جلنے پر پابندی لگائی تھی ان ریاستوں میں فلو کی وبا نے اتنی تباہی نہ مچائی جبکہ فرانسسکو کی ریاست نے لوگوں کا علیحدگی میں رہنا، آئسولیشن یا قرنطینہ کی پابندی سے گریز کیا تھا اور صرف منہ پر ماسک لگا کر لوگوں کو آزادانہ میل جول کی آزادی دی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1918ء میں سپپینش فلو کی وبا میں فرانسسکو کی ریاست میں بہت اموات ہوئی تھیں۔ اس کے بعد ہی دنیا نے Quarantine کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ معمول کی زندگی سے کٹ کر آسولیشن میں رہنے کا بھی ایک ڈپریشن ہوتا ہے۔ یعنی ملنے جلنے پر پابندی، تقریبات، پر پابندی، شادیوں کا منسوخ ہونا۔ خاندانی، ادبی، صحافتی تقریبات کا ملتوی ہونا، چھٹیاں ہیں مگر سفر سے گریز کرنا۔ دوسرے شہروں سے کسی سے ملنے نہیں جا سکتے۔ گھروں میں چھٹیوں سے بور ہوتے ہوئے بچے کہیں تفریح کے لیے باہر نہیں جا سکتے کہ تفریح گاہیں، پارکس، سینما ہائوس سب بند پڑے ہیں۔ لوگوں کی نقل و حرکت بہت محدود ہو کے رہ گئی ہے۔ ایسے میں شہروں کی معمول کی رونقیں روٹھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں لیکن کیا کریں کہ بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں۔ محمود شام صاحب نے کرونا کی اسی صورت حال پر تازہ ترین یہ شعر کہے:

عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی

بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

وبا کے موسموں میں انسان کا علاج یہ ہے کہ اسے چند روز اس کی ازلی تنہائی کے سپرد کر دیا جائے۔