یہ غریبوں کی بستی ڈبن پورے کا ایک منظر ہے۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں، آمنے سامنے، ڈھائی ڈھائی مرلے کے گھروں کی قطاریں، دروازوں پر لگے ہوئے۔ میلے پردے، جو عموماً کھاد کی بوریوں کو آپس میں سی کر بنائے گئے ہیں۔
قطار اندر قطار یہاں بے شمار گھر ہیں اور ان گھروں کے آسائشوں سے خالی کمروں میں غریبوں کے کنبے آباد ہیں۔ ان گھروں میں رہنے والے مرد محنت مزدوری کرتے ہیں۔ کوئی رکشہ ڈرائیور ہے، کوئی مکینک ہے۔ کوئی کسی ہوٹل پر کام کرنے والا بیرا ہے، کوئی دھوبی ہے، کوئی چھابڑی لگتا ہے تو کوئی کسی بڑے سٹور پر ملازم ہے۔ چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرنے والے، دیہاڑ داروں کے معاشی مسائل بڑے بڑے ہیں۔ ان گھروں میں رہنے والی غریب عورتیں بھی معاشی مسائل کے پہاڑ کو سر کرنے کے لئے اپنی مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ گھروں میں کپڑے سیتی ہے۔ کوئی لفافے بناتی ہے۔ کوئی ریڈی میڈ کپٹروں کے دھاگے کاٹنے کا کام کرتی ہیں۔ کوئی ایسی ہیں جو شہر کے خوشحال گھروں میں گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے گھر آپس میں اس طرح پیوست ہیں کہ عورتیں اپنے اپنے گھروں کی دہلیزوں پر بیٹھ کر سامنے والے گھر کی مکین عورتوں سے روز مرہ کے مسائل پر بآسانی گفت و شنید کر لیتی ہیں۔ کچھ دنوں سے ان کی گفتگو کا موضوع کرونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال ہے۔ خالہ رشیداں بھی انہی گھروں میں ایک گھر میں رہتی ہے۔ وہ روزانہ یہاں سے دو بسیں بدل کر بحریہ ٹائون ایک گھر میں کام کرنے جایا کرتی تھی۔ مگر اب بیگم صاحبہ نے اسے کرونا وائرس کے حفاظتی تدبیر کے طور پر ایک ماہ کی چھٹی دے دی ہے اور ظاہر ہے اس ایک ماہ کی تنخواہ بھی اسے نہیں ملے گی تو وہ اپنے گھر کا کرایہ کیسے دے گی بجلی کا بل، پانی کا بل، کیسے ادا کرے گی۔ خالہ رشیداں کو یہ سوچ سوچ کر ہی ہول اٹھ رہے ہیں۔ اسی محلے کے ایک گھر کی چھوٹی سی بیٹھک کرائے پر لے کر ایک ستر سالہ بیوہ اماں منوری بھی رہتی ہے اس نئی صورت حال سے وہ بھی پریشان ہے۔ چھ ماہ ہو گئے ہیں اس کا شوہر دنیا سے چلا گیا ہے مگر اس کا دیور پاء سبحان، ہر جمعرات کو آتا ہے اسے سو دو سو کا پھل فروٹ اور پینا ڈول کی گولیوں کا پتہ دے کر جاتا ہے۔ رکشہ اچھا چل رہا ہو تو پانچ سو بھی بیوہ بھابھی کی ہتھیلی پر رکھ دیتا ہے۔ کل پاء سبحان آیا تھا تو بجھا ہوا تھا۔ بالکل روہانسا ہو کر بولا اللہ جانے کیا بلا آ گئی ہے شہر میں، سارا سنسان پڑا ہے کوئی سواری نہیں ملتی۔ سارا سارا دن سواری کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔ سرکار نے حکم دیا ہے کہ لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ شہر سنسان گلیاں سنسان بازار بند تفریح گاہیں بند۔ لوگ کہیں آتے جاتے نہیں۔ آپا منوری سے کہنے لگا۔ معاف کر دینا آج تو کچھ پلے ہی نہیں پڑا۔ بس یہی کچھ ے پھر دو سو نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھا اور ساتھ درد کی گولیوں کا ایک پتہ بھی۔ پھر بولا یہی صورتحال رہی تو ہم جیسے بھوکے مر جائیں گے۔ گھر میں سات جانیں کھانے کو مانگتی ہیں ہم جیسوں کو اس وائرس نے کچھ نہیں کہنا۔ ہم تو بھوک سے ہی مر جائیں گے۔
اسی گلی کا ایک اور گھر ہے جہاں عرفان اور اس کی بیوی اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ عرفان اپنی بیوی کے ساتھ مل کر ایک سکول میں چھوٹی سی کنٹین چلاتا ہے۔ ان حالات میں سکول بند ہو چکے ہیں اور اس کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔ دونوں ہی سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ کیا بنے گا۔ گھر کا کرایہ بجلی گیس پانی کے بل بچوں کی فیس کیسے ادا ہوں گی۔ !
گلی محلے میں چلتے جائیں تو آخری کونے پر ایک خستہ حال مکان ہے جہاں شہر میں مزدوری کے لئے آئے ہوئے لڑکوں کا ایک گروپ رہتا ہے۔ سب مل کر اس دو مرلے گھر کا کرایہ اور بجلی پانی کا بل دیتے ہیں۔ ہفتہ ہونے کو ہے کوئی مزدوری نہیں مل رہی ملتان روڈ کے ایک چوک میں جا کر روز سویرے بیٹھ جاتے ہیں دوپہر تک آنتیں قل ہوا اللہ پڑھنے لگتی ہیں۔ شہر میں سارے کام کاج ٹھپ پڑے ہیں۔ گزارا تو پہلے بھی مشکل تھا لیکن اب تو فاقوں پر آ چکے ہیں۔
ڈبن پورا کے محلے میں بستے ہوئے غریب شہر کی زندگیوں کی یہ جھلکیاں سچائی پر مبنی ہیں۔ بس نام تبدیل کر دیے ہیں۔ چار پانچ کہانیاں ایک علامت اور استعارہ ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ہر مزدور اور دیہاڑی دار کی یہی کہانی ہے۔ کہانی کا عنوان بھی ایک ہے کہ کاروبار ٹھپ ہو۔ مزدوری نہ ملے تو زندگی کی گاڑی کیسے کھینچی جائے۔ سانس کا بوجھ کیسے ڈھویا جائے۔
سیلف آئسولیشن، قرنطینہ، سماجی دوری سینی ٹائزرز۔ غریب شہر اور دیہاڑی داروں کے نزدیک یہ وہ چونچلے ہیں جو امیر شہر افورڈ کر سکتا ہے۔ یا پھر وہ جس کا کم از کمپیٹ بھرا ہو اور کام نہ کرنے سے جس کو زندگی کے لالے نہ پڑیں۔ جس کی جیب بھی خالی ہو اور پیٹ بھی خالی ہو، اسے سیلف آئسو لیشن اور سینی ٹائزر کے مطلب سمجھ میں نہیں آتے۔ کوئی ہے اس حکومت میں ایسا صاحب شعور جو وزیر اعظم کو یہ بات سمجھا سکے۔
کرونا وائرس کی اس غیر معمولی صورت حال میں غریب شخص دیہاڑی دار کی زندگی ناقابل بیان مسائل سے دوچار ہو چکی ہے۔ ہنگامی طور پر ایسے تمام اہل وطن کے لئے خصوصی سروائیول فنڈ مختص کرنا چاہیے۔ کرونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے حکومت جو احتیاطی تدابیر کر رہی ہے۔ ترجیحات کی فہرست میں اس مسئلے کو سرفہرست رکھنا چاہیے آبادی کا بڑا حصہ غریبوں پر مشتمل ہے۔ ان کو شامل کئے بغیر کرونا کے پھیلائو کی حفاظتی تدابیر کارگر ثابت نہیں ہو سکتی کوئی ہے اس حکومت میں ایسا صاحب شعور جو وزیر اعظم کو یہ بات سمجھا سکے۔