پولیو، ساری عمر کی تکلیف، ساری عمر کی معذوی ہے۔ اس بیماری کا پہلا ظالمانہ تاثر مجھ پر اس وقت پڑا جب میں سکول میں پڑھتی تھی۔
مجھ سے دو سال سینئر ایک لڑکی پولیو کی بیماری کی وجہ سے نارمل چلنے پھرنے سے قاصر تھی۔ اس کا نام درخشاں تھا(نام بدل دیا ہے) خوب صورت ایسی کہ کسی افسانے کی ہیروئن کا گمان ہوتا۔ چمکتی ہوئی اجلی رنگت، بلوریں آنکھیں اور سنہرے ہلکے گھنگھریالے بالوں کی لمبی لمبی دو چوٹیاں اس نے سامنے ڈالی ہوتیں۔
بچپن میں وہ پولیو کی بیماری کا شکار ہوئی تھی۔ ماں باپ کی ایک ہی بیٹی تھی۔ علاج کے بہتیرے جتن انہوں نے کئے، مگر علاج تھا نہیں۔ پھر شاید ٹانگوں کا کوئی آپریشن ہوا تھا۔ لوہے کے موٹے موٹے راڈ ڈالے گئے تھے۔ جنوبی پنجاب کے شدید گرم موسم میں بھی کالے رنگ کے موٹے موٹے بوٹ پہننے پڑتے۔ جو ٹانگوں کے ساتھ جڑے ہوئے لوہے کے راڈ سے منسلک تھے۔ پورے سکول میں صرف وہی ایک لڑکی تھی جسے بھاگتے دوڑنے نارمل چلتے کسی نے نہ دیکھا۔
کالج میں بوجوہ وہ اپنی اصل ہم جماعتوں سے ایک برس پیچھے رہ گئی تو میری بڑی بہن کی ہم جماعت بن گئی۔ ایک جیسے مضامین نے انہیں ایک دوسرے کا دوست بنا دیا یہ مجھے اپنی بہن سے پتہ چلا کہ وہ بظاہر ہنسنے ہنسانے والی درخشاں پولیو کی اس معذوری کی وجہ سے کس قدر ڈیپریشن کا شکار رہتی ہے۔ ایک معذوری اس کی زندگی کے کتنے رنگ پھیکے کرتی چلی جاتی ہے۔ دل میں امید کے کتنے دیے بجھاتی ہے۔ پھر اس کے بارے میں سنا کہ وہ بیمار رہنے لگی ہے۔ جان چھڑکنے والے ماں باپ اکلوتی بیٹی کو اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر کے بھی معذوری سے نجات نہیں دلا سکتے تھے۔
اس تکلیف اور رنج کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے ایسی معذوری کو جھیلا ہو۔ درخشاں اپنے بچپن میں پولیو وائرس کا شکار ہوئی تھی اس وقت یقینا پولیو سے بچائو کی کوئی ویکسین نہیں بنی تھی نہ تھی اس کے بچائو کے حوالے سے اتنی آگاہی ہو گی۔ یہ ظالم بیماری اس لئے بھی ہے کہ ابھی تک اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا خدانخواستہ ایک بار لاحق ہو جائے تو عمر بھر کی معذوری اور عمر بھر کی معذوری کا مطلب ہے عمر بھر امید کے دیوں کو بجھتا دیکھتے رہو۔ عمر بھر اپنے دل میں خوابوں اور خواہشوں کی قبریں بناتے رہو۔ عمر بھر دنیا والوں کی ترس بھری سوالیہ نظروں کے نشتر سہتے رہو!
ہم آئے دن والدین کے دلوں اور دماغوں پر دستک دینے آتے ہیں کہ خدا کے لئے آپ اپنے بچوں سے ایک مکمل تندرست زندگی جینے کا حق مت چھینیں۔ پولیو کے دو قطرے ہر بار انہیں ضرور پلائیں۔ اس وقت دنیا میں پولیو کی بیماری ختم ہو چکی ہے، سوائے دو ملکوں کے ان میں ایک افغانستان ہے اور دوسرا ملک پاکستان ہے کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے۔ کہاں جنگ و جلد سے ادھڑا ہوا ملک افغانستان کہاں پاکستان مگر پولیو کا شکار ہونے میں یہ دونوں ملک ایک ہی لائن میں کھڑے ہیں۔
اس کی وجوہات تلاش کرنی چاہئیں کہ کیوں اور کیسے یہ تاثر ہمارے کچھ علاقوں میں پختہ ہوتا گیا کہ پولیو ویکسین بچوں کے لئے نقصان دہ ہے اس سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور مزید یہ کہ بالغ ہونے کے بعد وہ بچے پیدا کرنے قابل نہیں رہتے۔ پھر ایک آدھ ایسا افسوسناک واقعہ بھی خیبر پختونخواہ میں ہی ہوا کہ پولیو ویکسین پینے سے بچوں میں کوئی ری ایکشن ہوا اور دو ننھے بچے چل بسے۔ ایسے حادثات کی مکمل شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔
شفاف انکوائری عوام کے سامنے رکھنی چاہیے اگر موت کی وجہ ایکسپائرڈ ویکسین تھی تو اس کے ذمہ داران کو کڑی سزا ملنی چاہیے اگر اس کی وجہ پولیو کی ویکسین تھی ہی نہیں تو اس نتیجے کو بھی عوام کے سامنے لانا چاہیے۔ پولیو کی مہم خدشات توہمات اور وسوسوں میں کیوں گھڑی رہتی ہے یہ بھی مہم کے ذمہ داران اہل اختیار کی ذمہ داری ہے کہ ان توہمات اور خدشات کو عوام کے دلوں سے دور کیا جائے۔ ان کے سوالات کے مدلل جواب دیے جائیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ویکسین تولیدی نظام کو تباہ کرتی ہے اس کے شواہد تو کہیں نہیں ملتے۔
بنگلہ دیش بے پولیو کا خاتمہ 2014ء میں ہو گیا تھا۔ پولیو ویکسین مہم وہاں بڑے ہی شاندار ٹیکنیکل انداز میں جنگی بنیادوں پر چلائی گئی اور اب پانچ سال کے بعد بھی بنگلہ دیش نے پولیو کو دوبارہ اپنی سرزمین پر سر نہیں اٹھانے دیا۔ تو کیا بنگلہ دیش میں بچے پیدا ہونا بند ہو گئے؟ پاکستان میں 2014ء میں پولیو کیسز کم ہونا شروع ہوئے اور 2017ء میں گھٹتے گھٹتے پورے ملک میں صرف 8پولیو کیسز رہ گئے مگر بدقسمتی سے 2018ء اور 2019ء اور 2020ء میں یہ تعداد پھر بڑھنے لگی ہے۔
پولیو ایک سنگین بیماری ہے۔ عمر بھر کی معذوری ہے خدا کے لئے اپنے وسوسوں اور خدشوں کے ساتھ اپنے بچوں کی زندگیوں کو مفلوج نہ بنائیں۔ اپنی وہم زدہ سوچوں کے دائرے سے باہر نکل کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ جیسے دوسری بیماریوں سے بچائو کی ویکسین ہم لگوتے ہیں اسی طرح پولیو کا وائرس جو بیماری پھیلاتا ہے سے بچائو کے لئے یہ اپنے 5سال تک کے بچوں کو ہر بار دو قطرے ویکسین کے پلانا ضروری ہیں۔ بطور والدین ہم اپنے بچوں کے لئے کتنے خواب دیکھتے ہیں ایک مکمل اور صحت مند زندگی کا خواب ان میں سہرفہرست ہے تو پھر اپنے سارے وہموں کو جھٹک دیں۔ پانچ سال کے ہر بچے کو ہر بار پولیو کے دو قطرے ضرور پلائیں۔