شاید یہ کشمیر کے مظلوموں کا صبر ہے جو مودی پر پڑ رہا ہے کہ اس وقت پورا بھارت مودی سرکار کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی زندگیاں تو ایک مسلسل عذاب سے دوچار ہیں۔ غالباً ایک سو پینتالیس دن ہونے کو آئے ہیں کہ چناروں کی وادی میں لوگ ظلم کے زنداں میں محبوس زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مائوں کے لال شہید ہو رہے ہیں عورتوں کی عزتیں تار تار ہیں۔ صد حیف مسلم دنیا میں معاشی مفادات کی حکمرانی ہے سو ان مظلوموں کے حق میں کوئی ایسی آواز نہیں جوانہیں مودی سرکاری کو ظلم کے اس کاروبار سے باز رکھ سکتی۔ چند آوازیں ضرور اٹھیں مگر پھر اس نقار خانے میں کہیں گم ہو کر رہ گئیں۔
اس دنیا میں جہاں انسانی حقوق پر عالمی دن منائے جاتے ہیں، جہاں جانوروں کے حقوق پر سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، وہاں دنیا کشمیریوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش۔ مودی سرکار عالمی میڈیا کے لیے کشمیر کے دروازے بند کر دیتا ہے، کسی غیر جانبدار میڈیا کے نمائندے کو اس وادی میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، جہاں کے باسیوں کے لیے ان کے اپنے گھر قید خانے بن چکے ہیں۔ مریضوں کو علاج تک کے لیے معالج کے پاس جانے کی اجازت نہیں۔ بچے، سکولوں میں نہیں جا سکتے، کھیل کود نہیں کر سکتے۔ عورتیں، بچے، بوڑھے گھروں میں محصور ہیں۔ نوجوانوں کو چن چن کر شہید کیا جا رہا ہے یا انہیں بھارتی افواج اٹھا کر نا معلوم جگہوں پر لے جاتی ہیں۔ مظلوم کشمیریوں پر جبر کا ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ ان کی زبان بندی کر دی گئی۔
ان کے رابطے دنیا سے کاٹ دیئے گئے۔ انہیں گھر سے نکلنے کی آزادی نہیں تو احتجاج کی آزادی کیا ہو گی۔ مگر یہ کسے معلوم تھا کہ مظلوم کشمیریوں کی یہ جبری خاموشی، مودی سرکار کے لیے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ اس وقت نفرت اور احتجاج کا ایک طوفان ہے جس کی لپیٹ میں س وقت پورا بھارت آ چکا ہے۔ یہ کشمیریوں کا صبر ہی ہے جو مودی سرکار پر پڑا ہے اور اس نے شہریت کے قانون میں ترمیم کرنے کی جرأت کی اور گویا اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماری۔ شہریت کے قانون میں ترمیم سے بھارت میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کو Stateless کر دیا گیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو اس کے گھر سے نکال کر باہر کر دیا جائے۔ گھر کے چھت کا تحفظ چھین کر بے گھر کر دینے والی بات ہے۔ اس پر احتجاج ہونا فطری بات ہے۔ شہریت کے قانون سے متاثر ہونے والے بھارتی مسلمان ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر ان کے ہم وطن، ہندو اور سکھ بھی ان کے حق میں مودی سرکاری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
مختلف جگہوں سے شہریت بل کے متاثرین کی جو ویڈیوز آ رہی ہیں، وہ ناقابل بیان ہیں۔ لاکھوں لوگ اپنے بنیادی حق کے لیے سڑکوں پر موجود ہیں۔ مودی سرکار کو قطعاًً اندازہ نہ تھا کہ شہریت بل میں ترمیم کرنے کا رد عمل اتنا شدید ہو گا کہ ایک سونامی کی شکل اختیار کرے گا۔ انتظامیہ کے لیے لوگوں کے اس سونامی کو قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔ بھارتی پولیس مظاہرین پر تشدد کر رہی ہے۔ پوری دنیا بھارت کا یہ مکروہ چہرہ دیکھ کر حیران ہے کہ اپنی ہی درسگاہوں میں گھس کر مسلم طلبہ و طالبات پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ جامعہ ملیہ میں تو بھارتی پولیس کے اہلکار طالبات کے ہوسٹل تک میں گھس گئے اور انہیں ہراساں کیا۔ اس کا ردعمل بھی بہت شدید ہوا۔ یہ ویڈیو بھی سب نے ضرور دیکھی ہو گی کہ جامعہ ملیہ کی ایک با حجاب طالبہ بھارتی پولیس اہلکار کے سامنے بڑی جرأت سے للکار رہی ہے کہ چاہے کچھ کرو، گولی مار دو لیکن ہم اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ان احتجاجی مظاہروں میں ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں لیکن لوگ پھر بھی سراپا احتجاج ہیں۔ وہ ہر صورت میں دنیا کو بتانا اور دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی سرکار ان پر ظلم ڈھا رہی ہے۔
قانون شہریت 1955، دستور ہند کا حصہ ہے اور اس کی شق نمبر 14 اور شق نمبر 15 میں درج تھا کہ بھارت کسی شخص سے اس کے مذہب، نسل، ذات، جنس اور مقام پیدائش کی بنیاد پر تعصب اور امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔
11 دسمبر کو شہریت بل 1955 میں ترمیم کر کے مودی سرکار نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک کیا۔ اس بل کی رو سے نیشنل رجسٹرڈ سٹیزن ڈیٹا بیس میں جن کا نام موجود نہیں وہ مسلمان شہریت سے محروم ہو جائیں گے۔ بھارت کی ریاست آسام میں 20 لاکھ مسلمان اس ڈیٹا بیس میں موجود نہیں۔ نسل در نسل بھارتی سرزمین پر رہنے والے یہ مسلمان صرف ایک ظالمانہ ترمیم سے کیا اپنے گھر، اپنے وطن اور دھرتی سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ یہی وہ سلگتا ہوا سوال ہے، جو اس وقت بپھرے ہوئے احتجاجی، بھارت کے گلی کوچوں میں اٹھا رہے ہیں۔
شہریت بل میں ایک اور ترمیم یہ ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم جنہیں ان ممالک میں مذہبی آزادی نہیں وہ بھارتی شہریت کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں۔ اس ترمیم کا نقصان بھی بلاواسطہ طور پر بھارتی مسلمانوں کو ہو گا۔ شہریت ترمیمی بل 2019ء انتہائی ظالمانہ قدم ہے۔ ایک طرف تو نسل در نسل بھارتی سرزمین پر رہنے والے مسلمانوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا اور دوسری طرف غیر مسلموں کو حق شہریت دے کر مسلمان آبادی کے تناسب میں تبدیل کرنا۔
مسلمانوں سے حق شہریت چھین کر، ان کا حال میانمر کے مسلمانوں کی طرح کرنا کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی ہراستی کیمپوں میں محصور رہیں۔ مودی سرکار نے مسلم نفرت کا شکار ہو کر جو آگ بھارت میں لگائی ہے وہ آسانی سے نہیں بجھے گی۔ صرف ایک ہی صورت ہے کہ مودی سرکار کو مسلم کش شہریت کا ترمیمی بل واپس لے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان باسیوں سے اس دھرتی پر رہنے کا حق چھین لیا جائے جو نسلوں سے اپنے خواب اس دھرتی کی مٹی میں بو رہے ہیں۔ ان کی زندگی کے سورج اسی دھرتی سے طلوع ہوتے اور اسی مٹی میں غروب ہوتے ہیں۔ کوئی قانون ان سے اس دھرتی پر رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔