22 مئی 2020ء عیدالفطر سے ایک دن پہلے۔ ایک عام سا دن طلوع ہوا تھا۔ عارف اقبال فاروقی نے اپنے تین پیارے پیارے بچوں اور محبت کرنے والی بیوی کو لاہور سے کراچی جانے والی پرواز پی کے 8303سے کراچی روانہ کیا تھا۔ دل کا اداس ہونا فطری تھا لیکن اس فطری اداسی میں عارف اقبال کا دل ناجانے کیوں ڈوب ڈوب کے ابھرتا تھا۔ وہ دفتر میں بظاہر کام میں مصروف تھا مگر دل ایک کال کے انتظار پر دھڑک رہا تھا کہ ابھی فوزیہ کی کال آئے گی۔ عارف ہم خیریت سے کراچی پہنچ گئے، اس نے گھڑی دیکھی تو فلائٹ کے پہنچنے کا وقت بس ہوا چاہتا تھا۔
اچانک موبائل کی بیل بجی تو فون پر عارف کے والدین تھے چھوٹتے ہی پہلا سوال یہ ہوا کہ فوزیہ اور بچے کس فلائٹ سے کراچی گئے ہیں۔ ٹی وی پر ایک خبرچل رہی ہے کہ کراچی جانے والا جہاز کریش ہو گیا ہے۔ عارف اقبال فاروقی کے لئے وہ قیامت خیز لمحہ تھا۔ اس کا کہنا ہے میں یہ خبر سن کر ساکت ہو گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ میرے اندر سے زندگی نکل چکی ہے۔ والدہ پریشانی کے عالم میں پوچھ رہی تھیں کہ فوزیہ اور بچے کس جہاز سے گئے تھے۔ وہ دعائیہ انداز میں سوچتے تھے کہ کاش اس کا جہاز محفوظ ہو۔ مگر میں جانتا تھا کہ کورونا کی وجہ سے محدود فلائٹیں ہیں اور کریشن ہونے والا بدقسمت جہاز وہی ہے جس میں میرے جان سے پیارے تین بچے اور محبت والی شریک حیات فوزیہ کراچی جا رہے تھے اور میں انہیں دوبارہ نہیں دیکھ سکوں گا۔ اس دلخراش حادثے میں پائلٹ اور جہاز کے عملے سمیت ستانوے مسافر جاں بحق ہوئے۔ دو مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے۔
کتنے گھرانوں پر عید سے ایک روز پہلے قیامت بیت گئی۔ ہر ایک کے لب پر یہ سوال تھا کہ ریاست پاکستان کے ستانوے شہری کس کی غلطی سے اس خوفناک حادثے کی نذر ہوئے؟ ستانوے قیمتی جانیں ایک حادثے کی نذر ہونے کے بعد انتظامیہ کو جس طرح غم سے نڈھال لواحقین کی مدد کے لئے آگے آنا چاہیے تھا۔ حکومت کے کار پردازوں کو جس درد مندی اور غم گساری کا اظہار کرنا چاہیے تھا وہ کہیں نظر نہیں آیا۔
اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد غم سے نڈھال لواحقین دکھ کی اس گھڑی میں تنہا کھڑے تھے۔ جلی ہوئی، راکھ ہو چکی بے شناخت لاشوں میں اپنے پیاروں کے خدوخال کو تلاش کرنا کتنا قیامت خیز، کتنا کرب انگیز تھایہ وہی جانتے ہیں جن پر بیتی!عارف اقبال فاروقی کی تکلیف کا اندازہ لگایا ہی جا سکتا، جسے ایک نہیں چار چار پیاروں کو جلی ہوئی بے شناخت لاشوں کے ڈھیروں میں سے تلاش کرنا تھا۔
انتظامیہ کے رضا کاروں کو وہاں موجود ہونا چاہیے حکومتی کارندوں کو ہر ممکن مدد کے لئے پہنچنا چاہیے تھا۔ لیکن درد مندی اور غم گساری کی بجائے انتظامیہ کی غیر ذمہ داری نے زخموں پر مرہم کی بجائے نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ کل 22مئی 2021ء تھا۔ اس کربناک حادثے کو پورا ایک سال گزر چکا ہے۔ یہ پاکستان ہے یہاں بڑے بڑے حادثوں اور قومی سانحات کو یکسر بھلا دینے کا چلن ہے۔ ہماری قوم ویسے ہی روز مرہ کی بنیاد پر آنے والی سنسنی خیز خبروں کی ڈگڈگی پر سوشل میڈیا پر دھمال ڈالتی ہے، ایسے میں ایک سال پہلے ہونے والا جہاز کا حادثہ اور اس میں ستانوے قیمتی جانوں کا زیاں کسے یاد رہتا۔ اس کا تمام کریڈٹ عارف اقبال فاروقی کو جاتا ہے، جس نے پورا سال اس قومی سانحے کو ذہنوں سے محو نہیں ہونے دیا۔ سوشل میڈیا پر ہر وقت وہ انصاف کے لئے اپنی آواز بلند کرتا رہا۔ وہ خود اس حادثے کا سب سے زیادہ متاثرہ شخص تھا مگر اس نے اپنے غم کو اپنی طاقت بنا کر ان مافیاز کے خلاف آواز اٹھائی۔ جنہوں نے پی آئی اے کو اس حال تک پہنچایا۔ سول ایوی ایشن کے حساس ترین ادارے میں کام کرتے، اپنی ذمہ داریوں سے غافل انسان جانوں سے کھیلتے۔
افسران کو بے نقاب کیا اس نے ہمیں بتایا کہ کیسے مسافروں کی جلی ہوئی بے شناخت لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ڈی این اے کی غلط رپورٹس پر غلط لاشیں لواحقین کے حوالے کی گئیں۔ اس قیامت کی گھڑی جب حکمرانوں کو غم سے نڈھال، لواحقین کو دلاسہ دینے کے لئے وہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔ کوئی وہاں موجود نہ تھا۔ سندھ حکومت کا کوئی نمائندہ، انتظامیہ کے رضا کار وہاں موجود نہ تھے۔ آ جا کے ایدھی والے اور ویلفیئر کی دوسری تنظیموں کے رضا کار مدد کے لئے موجود تھے۔ عارف اقبال فاروقی ایک طرف اپنے پورے گھرانے کو کھو چکے تھے۔ اپنے پیاروں کے غم سے برسر پیکار، انہوں نے جس حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ حیران کن اور قابل داد ہے اور غم کے اس بوجھ کو اٹھائے بھی انصاف کے لئے مسلسل آواز بلند کرتے ہیں، انصاف تک پہنچنے کے لئے ان سوالوں کے جواب ضروری ہیں اور وہ مسلسل ان سوالوں کو اٹھا رہے ہیں۔ حادثے کی شفاف تحقیقات کیوں نہیں کروائی گئیں۔ وہ ایئر ٹریفک کنٹرولر جو حادثے کے ذمہ داران تھے انہیں ایک سال تک کام کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ انہیں کام سے فوری الگ کر دینا چاہیے تھا۔
فلائٹ سے پہلے جہاز کی مکمل تکنیکی چیکنگ میں بھی مجرمانہ غفلت ہوئی۔ اگر جہاز میں خرابی تھی تو اسے فلائٹ کی اجازت کیسے ملی اور پھر دلخراش سانحے کے بعد حکومتی انتظامیہ نے بھی اپنا کردار ذمہ داری اور درد مندی سے ادا نہیں کیا۔
عارف اقبال فاروقی جیسے لوگ اس معاشرے کے ہیرو ہیں جو اپنے غم کو اپنی طاقت بنا کر مظلوموں کی آواز بن جائیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے بعد غم کے اس گہرے سمندر میں کیسے روز ڈوبتے اور ابھرتے ہوں گے۔ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس حوصلے اور استقامت کے ساتھ مسلسل اپنی آواز انصاف کے لئے بلند کر رہے ہیں۔ اور وہ بھی اس بے حس معاشرے میں جہاں پالیسی میکروں، حکمرانوں اور ذمہ داروں کی سماعتیں سن ہو چکی ہیں دھڑکتے دلوں کی جگہ پتھر رکھے ہیں۔ !!