المیہ یہ ہے کہ ہمارے حالات حاضرہ کئی برسوں سے ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ عوام کے لئے مسائل کی وہی دلدل ہے اور اس پہ حکمرانوں کی بے حسی بھی وہی ہے ان دو انتہائوں کے درمیان، خبروں کی تاریخیں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن خبریں وہی ہیں جو آج سے کئی برس پیشتر تھیں۔ وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے۔ تو عرض یہ ہے کہ وہ مخلوق جسے عوام کہتے ہیں وہ اس کے حالات نہ کل بدلے تھے نہ آج تبدیلی کی ہوا چلنے کے بعد بدلے ہیں۔ البتہ وزیروں، مشیروں، مصاحبوں اور خوشامدیوں کے حالات واقعات پر تبدیلی کا مثبت اثر پڑا ہے اور اس مثبت اثر کے تمام تر منفی اثرات عوام جھیل رہے ہیں۔ ایسے ہی لائبریری کی ایک الماری کی گرد جھاڑتے ہوئے، ایک ننھی منی سی کتاب ہاتھ لگی۔ احسان ملک اس کے مصنف ہیں اور اس کتاب کے اندر افسانچے یا حکایت کی صنف سے ملتی جلتی مختصر تحریریں ہیں۔ ستر کی دہائی میں یہ کتاب چھپی تھی۔ پہلا ایڈیشن 74ء میں شائع ہوا تھا، اس میں شامل مختصر تحریریں، جو معاشرتی، معاشی سماجی حالات پر مصنف کا تبصرہ ہیں، آج بھی کتنی دہائیوں کے بعد حالات اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ آج کے کالم میں ذائقہ بدلنے کو اسی کتاب سے چند اقتباسات قارئین کے لئے پیش ہیں۔ دیکھیے کہ آج بھی حالات واقعات پر طنز و مزاح کے پیرائے میں یہ تبصرہ کس قدر سچا ہے۔
متوسط طبقہ:ایک بچے نے استاد سے پوچھا جناب یہ متوسط طبقہ کسے کہتے ہیں۔ استاد نے جواب دیا۔ بیٹا اس طبقے کو کہتے ہیں جسے امیری اور غریبی دونوں کے مسائل سے بیک وقت نمٹنا پڑے۔ انصاف اور بینگن: ایک جمہوری ملک میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بینگن ایک سو روپے کلو ہو گئے۔ وزیر خوراک نے اپنے سیکرٹری کو طلب کیا اور تیوری پر بل چڑھا کر بولا۔ یہ کیا اندھیر ہے۔
وزارت خوراک کے سیکرٹری نے دست بستہ عرض کی۔ حضور کس اندھیر کی بات کر رہے ہیں؟ اس جمہوری ملک میں تو سینکڑوں اندھیر ہیں۔ یہ جو بینگن سو روپے کلو بک رہے ہیں۔ یہی ایک ترکاری تو ہے مجھے پسندتھی?وزیر نے کہا۔ مائی باپ بینگن سو روپے بک رہے ہیں تو یہ میرا دوش نہیں لاء آف سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کا رگڑا ہے۔ جس شے کی مانگ بڑھ جائے اس کی قیمت کا بڑھنا لازمی ہے۔ اب سمجھ میں بات آئی کہ انصاف کیوں مہنگا ہو رہا ہے۔ کیونکہ ملک میں انصاف کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ اسی لئے لوگ انصاف کی خاطر اپنا خون دے رہے ہیں۔ وزیر بولا۔ جی سرکار۔ سیکرٹری نے خوشامدی لہجے میں کہا۔ اس کو کہتے ہیں لاء آف سپلائی اینڈ ڈیمانڈ بینگن اور انصاف میں بڑا تعلق ہے جناب عالی مجھے خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ اتنے بھی گھامڑ نہیں۔ جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ ایک صحت مند غذا: ایک جمہوری ملک کے وزیر سے اس کے ایک دوست نے پوچھا پہلے تو تم نہایت دبلے پتلے تھے۔ آج کل کیا کھاتے ہو کہ خوب موٹے تازے ہو رہے ہو۔
وزیر نے جواب دیا۔ قوم کا غم کھاتا ہوں۔ دوست نے سوال کیا اور قوم کیاکھا رہی ہے۔ وزیر نے پیٹ پرہاتھ پھیرا اور کہا "دھوکا"! لطافت سخن:عدالت میں تین بدکار عورتوں کو حاضر کیا گیا جو نہایت حسین و جمیل تھیں۔ مجسٹریٹ نے پوچھا تمہارے اصلی نام کیا ہیں!
ایک نے شوخی سے کہا۔"نیکی" دوسری شرارت سے بولی۔"شرافت"تیسری نے دلبریائی سے کہا۔"صداقت" یہ سن کر مجسٹریٹ معنی خیز انداز میں مسکرانے لگا اور بولا آپ کے اس خادم کو "انصاف" کہتے ہیں۔ دو آوازیں : ایک آواز"بچائو۔ بچائو۔ بچائو میں افلاس کی پستیوں سے بول رہا ہوں۔ دوسری آواز:جان برادر میں تم کو نہیں بچا سکتا۔ میرے پاس کوئی ایسی رسی نہیں جو لاکھوں میل لمبی ہو۔ میں ثروت کی بلندیوں سے بول رہا ہوں۔ ایک افسانچہ پڑھیے۔
جنتا اور لٹیرے:ایک جمہوری ملک میں ایک شخص کو عدالت میں حاضر کیا گیا، الزام تھا کہ وہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا رہا ہے۔ ملزم نے اپنے بیان میں جج سے مخاطب ہو کر کہا۔ می لارڈ یہ لوگ بکواس کرتے ہیں کہ میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہوں۔ یہ دیکھیے آپ خود ملاحظہ فرمائیے کہ میرا ایک ہاتھ ہے سرے سے غائب ہے۔ میں عوام کو دو ہاتھوں سے نہیں فقط ایک ہاتھ سے لوٹتا رہا ہوں۔ یہ سن کر عدالت نے فیصلہ دیا کہ ملزم کو بری کر دیا جائے۔
میں تو جُوں جُوں یہ مختصر افسانے پڑھتی گئی مجھے لگا کہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات پر جو تبصرہ کیا گیا وہ آج بھی درست معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ حالات بہتر ہونے کی بجائے شاید دگرگوں زیادہ ہوئے ہیں۔ سیاست کے منظر نامے کو دیکھیں تو ماحول تہذیب، اخلاقیات اور زبان کی شائستگی سے عاری، الزامات دشنام طراز، کی بدصورتی سے بوجھل نظر آتا ہے۔ مکالمے کی جگہ مخاطب پر الفاظ و بیان کے اژدھے حملہ آور ہوتے ہیں۔ سماجی روایات بھی ستر کی دہائی سے آج 2020ء تک ایک مکمل تبدیلی سے دوچار ہو چکی ہیں اس وقت شاید سماج میں انسان زیادہ بستے تھے، انسانیت کی روشنی بھی انسانوں میں موجود تھی۔ انداز و اطوار میں تہذیب شائستگی، احترام اور احیاء کی چمک موجود تھی مگر آج تیزی سے یہ چیزیں نایاب ہوتی جا رہی ہیں لیکن اہل اختیار و اہل اقتدار کی جو بے حسی، عوام کے مسائل کے لئے تھی۔ وہ آج بھی جوں کی توں ہے۔ حکمرانوں وزیروں مشیروں کی صحتیں "عوام کا غم کھانے" سے دوگنی ہو چکی ہیں اور عوام نحیف، لاغر اور کمزور ہو رہے ہیں کہ انہیں کھانے کو جو میسر ہے وہ دھوکا ہے۔ حالات حاضرہ کے اس تسلسل پر دلدوز فگار کے یہ اشعار کس قدر سچے ہیں اور دل کو لگتے ہیں :
حالات حاضرہ میں اب اصلاح ہو کوئی
اس غم میں لوگ حال سے بے حال ہو گئے
حالات حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے