نامعلوم افراد کی گولیوں سے ڈرنا اور مرنا کراچی میں بسنے والوں کے شب و روز کا حصہ بن گیا۔ ایسے ہی جیسے کھانا پینا سونا جاگنا روٹھنا اور منانا ہوتا ہے، ایسے ہی کسی چوک، چوراہے گلی یا بازار میں نامعلوم افراد کی گولیوں سے مر جانا۔ زندگی کے معمولات میں شامل ہوتا گیا۔
معلوم نہیں شہر والے بے حس تھے، یا پھر وہ جو اختیار والے تھے جنہوں نے آغاز ہی میں اس ظلم کی بیخ کنی نہ کی۔ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوئے۔ نامعلوم افراد وہ تھے جنہیں سارا شہر جانتا تھا وہ بھی جانتے تھے جنہیں اصل قوتیں کہا جاتا ہے۔ پھر کیوں وہی قاتل، وہی جابر، وہی ستم ڈھانے والے، منتخب ہوتے رہے، حکومتیں بناتے رہے اپنی مطلق العنانی قائم کرتے رہے۔ اور ظلم کی ایک طویل شب تاریک اس شہر پر مسلط رہی۔ ظالموں نے اس شہر کے سورج بجھا دیے اور شہر چپ رہا پاکستان کے مسیحا پاکستان کے فخر، حکیم سعید کو دن دیہاڑے گولیوں سے بھون ڈالا۔ سفید اجلا لباس لہو میں تربتر۔ اپنے اثاثے وقف پاکستان کرنے والا اپنے لہو میں ڈوبا، اوندھے منہ پڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پورا کراچی اوندھے منہ پڑا ہے پورا کراچی لہولہان ہے۔ کیسے کیسے سورج بجھائے گئے یہاں۔ ماہنامہ تکبیر کے مدیر۔ بہادر اور جری صحافی۔ نہ ڈرنے والے نہ جھکنے والے۔ صلاح الدین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسی شہر میں۔ ہاں اسی شہر میں دو سو ساٹھ، زندہ مزدوروں کو، صرف بھتہ نہ ملنے کے رنج میں جلا دیا گیا۔ اس وقت بھی جب سارا شہر جانتا تھا کہ ان کو زندہ جلانے والے کون ہیں۔ یہ نامعلوم افراد پہلے دو سو ساٹھ انسانوں کو زندہ جلاتے ہیں اور پھر شہر بھر میں سوگ کا اعلان کرنے والے، آنسو بہانے والے بھی یہی نامعلوم افراد ہیں ممتاز ادبی شخصیت عقیل عباس جعفری نے اپنے شہر کراچی کا نوحہ لکھتے ہوئے کہا کہ
پہلے مرے گھر کے اندر مجھ کو قتل کریں
اور پھر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد
ہم سب ایسے شہر ناپرساں کے باسی ہیں
جس کا نظم و نسق چلائیں نامعلوم افراد
اور اس میئر کی بدقسمتی دیکھیے کہ شہر کا نظم و نسق چلانے والے یہ نامعلوم افرادہر اس شخص کے ویری دشمن تھے جس نے اس شہر کو سنوارنا چاہا۔ جس نے اس شہر سے پیار کیا اس کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہا۔ اسے گھات لگا کر موت کی وادی میں اتار دیا گیا۔ آہ!یہاں شب زاد اہل اختیار رہے اور کیسے کیسے سورج بجھاتے رہے۔ مجھے پروین رحمان یاد آتی ہیں۔ اس شہر ناپرساں کی، جو اس شہر پر نچھاور ہو گئی۔ ڈاکٹر اختر حمید خان کی شاگرد آرکیٹکٹ۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر جس نے خصوصی طور پر سیوریج کے سسٹم اور پینے کے پانی کے نظام پر کام کیا۔ غریبوں سے جڑی ہوئی۔ نہایت قابل اور جی دار سوشل ورکر۔ جو آخر وقت میں قبضہ گروپ مافیا کے خلاف تفصیلی تحقیق اور تدوین میں مصروف تھی۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے تھے، وہ پردہ نشین جو شہر کے اہل اختیار تھے۔ بم سے اڑا دینے کی، گولیوں سے بھون دینے کی دھمکیاں اس پر ملنے لگیں۔
پروین رحمان، ٹینکر مافیا کو بے نقاب کرنے کے لئے بھی تحقیقی کام میں مصروف تھی، کراچی کے لوگوں کا درد سمجھتی تھی۔ اسے دور کرنے کے خواب دیکھنے اور اس کی تگ و دو کرنے والی کو ایک شام دفتر سے گھر جاتے ہوئے "نامعلوم افراد "نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آج جو کچھ ہم کراچی کی تباہی دیکھ رہے ہیں وہ ایسے ہی تو اس نہج پر نہیں پہنچی۔ جس نے اس غریب پرور شہر کو سنوارنا چاہا۔ اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ جس نے مجرموں، بھتہ خوروں، قبضہ گروپ مافیا، ٹینکر مافیا کو بے نقاب کرنا چاہا، اسے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ کتنے ہی لوگ بے نام اس شہر پر قربان ہو گئے۔ نثار بلوچ بھی انہی میں سے ایک تھا۔ پانی کی غیر قانونی تجارت کرنے والوں اور پارک پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف ڈٹ گیا تو اسے مار دیا گیا۔ بارش سے کراچی ڈوبا تو اس کی وجہ یہی ہے اس شہر کو نوچنے والے نوچتے رہے مگر شہر کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کرتے رہے۔ سوریج سسٹم، نالوں کی صفائی نکاسی آب کا نظام رفتہ رفتہ تباہ ہوتا گیا۔ کبھی اس شہر کو ڈاکٹر اختر حمید خان جیسا مسیحا بھی میسر آیا تھا۔ کیا نابغہ روزگار شخص تھا۔
اسی 80ء کی دہائی میں جس نے کراچی کے مضافات میں بسی غریبوں کی بستی پر ایک شاندار پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ جو آج دنیا بھر میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے نام سے ایک قابل تقلید مثال کے طور پر کوٹ کیا جاتا ہے۔ slum areaمیں پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کا پورا سسٹم بنانا۔ oppکا ایک حصہ ہے۔ جس سے بدبودار گندی گلیوں میں بستے ہوئے انسانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا گیا۔ ایک یہ کراچی تھا اور ایک آج کا کراچی ہے۔ معکوس ترقی کا بدترین سفر طے کرتے کرتے یہاں تک پہنچا کہ غریب تو غریب۔ امیروں کی بستیاں بھی بارش کے پانی میں ڈوب گئیں، ایک شخص روتا اور دہائیاں دیتا تھا کہ کروڑوں روپے مالیت کے سامان والا اس کا شاپنگ مارٹ بارش کے پانی میں ڈوب گیا ہے جس شہر میں ڈیفنس میں رہنے والے سراپا احتجاج ہوں۔ سڑکوں پر نکل آئیں اس شہر کے غریبوں کی حالت زار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہاں مگر اس امیری اور غریبی کے درمیان بھی تو کئی طبقے کئی طبقے آتے ہیں۔
درمیانہ، نچلا، سفید پوش، عزت نفس اور خوداری رکھنے والا سفید پوش۔ پائی پائی جوڑ کر زندگی کا سامان کرنے والے سانس سانس مشقت سے رزق کما کر اپنی بیٹیاں بیاہنے والے۔ قسطوں پر جہیز بنانے اور زندگی کو قسطوں میں گزارنے والوں کی کل جمع پونجی اس بارشی سیلاب میں بہہ گئی۔ جس شہر میں پوش آبادیوں والے حکمرانوں کی بے حسی پر سراپا احتجاج تھے وہاں ان غریبوں کی اوقات ہی کیا تھی کہ کوئی انہیں پوچھتا۔ بارش برستی رہی شہر ڈوبتا رہا۔ بارش کے پانیوں میں بند نالوں اور ناکارہ سیوریج سسٹم کی اگلی ہی غلاظت کے ساتھ ساتھ وہ جھوٹے وعدے بھی تیر رہے تھے جو حکمران جماعت نے گزشتہ بارہ برس میں کراچی کی قسمت بدلنے کے لئے کراچی کے باسیوں سے کیے تھے۔