گزشتہ کالم میں قدرت کی طرف سے عطا کردہ حیران دفاعی میکانزم یعنی، امیونٹی سسٹم(immunity systam) پر بات ہوئی تھی۔ یہ نعمت ہر انسان کو قدرت کی طرف سے میسر ہے۔ ایک پوری حفاظتی بریگیڈ، ہمہ وقت اسے ان گننت جراثیموں اور وائرسوں کے حملے سے بچاتی رہتی ہے۔ بیماریوں سے حفاظت کا یہ پیچیدہ نظام خودکار طریقے سے کام کرتا ہے یعنی ہماری اس میں کوئی شعوری کوشش نہیں ہوتی۔ لیکن جو بات یہاں سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی شعوری کوشش سے اس حفاظتی بریگیڈ کو مضبوط توانا اور طاقت ور کر سکتا ہے تاکہ یہ بیماریوں سے بچائو کا کام بھر پور طریقے سے سرانجام دے سکے۔
مدافعتی نظام کو تقویت دینے میں بہت سارے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بات جس پر پوری دنیا کے امیونولوجسٹ متفق ہیں وہ یہ ہے کہ انسان کی سوچ اس میں سب سے بڑا اور اہم فیکٹر ہے۔ اس موضوع کو سمجھتے ہوئے میں نے بہت سارے ریسرچ پیپرز پڑھے۔ ایک سادہ جملہ جو اس پورے تھسیس کو کھول کر بیان کر دیتا ہے اور اس میں امیونولوجی کا پورا فلسفہ موجود ہے۔ یہ فقرہ ہے۔
Our state of mind is our state of health
مثبت سوچ ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط کر کے ہماری صحت کو بہتر بناتی ہے جبکہ منفی سوچ، ہمارے مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہے، جس کا نتیجہ کمزور صحت کی صورت میں نکلتا ہے۔ مثبت سوچ کیا ہے؟ شکر گزاری کی مستقل کیفیت۔ امیدوار بہتری کا یقین، بہتر حالات، بہتر مستقبل کا یقین خالق کائنات کی ذات پر مکمل ایمان، خزاں میں بھی بہار کی امید۔ نقصان میں بھی فائدے کے بعید کو سمجھنا۔ منفی سوچ کے بھی بے شمار زاویے ہیں لیکن میں جس تناظر میں یہ کالم لکھ رہی ہوں۔ میں اس پر فوکس کروں گی۔ کسی نقصان، بیماری یا انہونی کے مستقل خوف میں رہنا ایک ایسی منفی سوچ ہے جو دیمک کی طرح انسان کے مدافعتی نظام کو اندر سے کمزور کر دیتی ہے۔
اس وقت دنیا کرونا وائرس کی جکڑ میں ہے، ہر طرف سے بیماری اور موت کی خبریں آ رہی ہیں۔ ہمارا میڈیا اچھی خبروں کو ہائی لائٹ کرنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس سے سنسنی خیزی کا عنصر پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے اس وائرس کے حملے سے صحت مند ہونے والوں کی کہانیاں اور خبریں لائم لائٹ میں نہیں آتیں۔ مسلسل وائرس کے پھیلائو اور اموات کی خبریں سن سن کر بیشتر لوگ زرد خوف کے حصار میں آ چکے ہیں اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ بیماری کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی ہے۔ وہ بھی جلد یا بدیر کورونا وائرس کا شکار ہونے والے ہیں کچھ لوگوں پر تو ایسے panic attack ہونے لگتے ہیں، جس میں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وائرس ان پر حملہ کر چکا ہے۔ بیماری کی ساری علامتیں باقاعدہ ان میں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ یہ ذہن کی ایک ابنارمل کیفیت ہے اور سائیکائٹری میں باقاعدہ اس کی ایک اصطلاح موجود ہے۔ اسے Noso phobia کہتے ہیں۔ اسے disease phobia بھی کہا جاتا ہے۔ بیمار ہونے کا خوف جب مستقل رہنے لگے تو یہ ایک ذہنی بیماری بن جاتی ہے اور اگر اس ذہنی بیماری کو ٹھیک نہ کیا جائے تو یہ مدافعتی نظام کو کمزور کر کے حقیقت میں کسی جسمانی عوارض کو دعوت دیتی ہے۔
ایک سایکاٹرسٹ Noso phobia کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی شخص ایسے علاقے یا ایسی کمیونٹی میں رہے جہاں کوئی بیماری پھیل رہی ہو یا پھر اس کے اپنے خاندان میں کوئی بیمار ہو تو پھر وہ اس بیماری سے متعلق زیادہ سے زیادہ خبریں پڑھتا ہے معلومات اکٹھی کرتا ہے۔ شعوری طور پر جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو دراصل وہ اپنے لاشعور کو فیڈ کر رہا ہے اس خاص بیماری کے حوالے سے یہ لاشعور یا Sub-conscious پورے جسم کو بیماری کے سگنلز بھیجتا رہتا ہے اور خوف کی اس مسلسل کیفیت میں جسم، ردعمل کے طور پر سٹریس ہارمون خارج کرتا ہے۔ cortisol بھی ایک ایسا سٹریس ہارمون ہے جو جسم کے اندر زیادہ مقدار میں مستقل خارج ہو تو تباہی پھیلاتا ہے۔ مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے۔ ملفوسائٹس جو وائٹ بلڈ سیلز(WBC) ان کو تباہ کرتا ہے یوں انسان کے مدافعتی نظام میں ایک نقب لگا کر اسے کمزور کرتا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ سے دوچار مدافعتی نظام خود بخود بیماریوں کو دعوت دینے لگتا ہے۔ کرونا وائرس کے تناظر میں آپ موجودہ صورت حال کو دیکھیں تو کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہاں ہر دوسرا شخص Noso phobia کا شکار ہے۔ ہمارا علاقہ اور کمیونٹی تو کیا پورا شہر ملک بلکہ پوری دنیا اس بیماری کی لپیٹ میں آ رہی ہے۔ 24/7ہم بیماری اور اموات کی خبریں سنتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسی ہی ویڈیو اور معلومات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ ہم مستقل ایک بیماری کے خوف اور اس کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ ہم اپنے لاشعور میں کورونا وائرس کی بیماری کو فیڈ کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں ہمیں اس vicious circle اس شیطانی چکر کو روکنا ہے۔ خوف کے اس مستقل شکنجے سے خود کو آزاد کرنا ہے۔ اپنی شعوری کوشش کر کے اپنے لاشعور کو شکرگزاری امید اور خوشی کے جذبات سے بھریں۔ لاشعور کی اس الماری کی صفائی کریں خوف کو اٹھا کر باہر پھینک دیں اور اس کی جگہ یقین اور ایمان کو رکھیں اس الماری کے جس خانے میں انہونی کا ڈر دے رکھا ہے۔ اسے بھی اٹھا کر کوڑے دان میں پھینکیں اور اس کی جگہ اللہ تعالیٰ کی ان گنت بے شمار و بے حد و حساب نعمتوں کی شکر گزاری کو رکھ دیں۔ ایک ایک نعمت کا نام لے کر اس کا شکر ادا کریں۔ شکر گزاری کی ایک نوٹ بک بنا کر اس میں باقاعدہ لکھنا تو ایک تھراپی ہے۔
روزانہ کی روٹین میں واک جسمانی ورزش کی ضرور بالضرورشامل کریں۔ پینتیس منٹ کی جسمانی ورزش سے انسان کے اندر ایسے ہارمون پیدا ہوتے ہیں جو اسے ہر فکر سے آزاد کر کے خوشی کی کیفیت عطا کرتے ہیں۔ ڈوپا مائن اور سیرٹونن خوشی کے ہارمون ہیں یہ بھی ہمارے قدرتی مدافعتی نظام کی حفاظت کرتے ہیں اور اسے مضبوط بناتے ہیں۔
جب ہم روحانی طور پر اللہ سے جڑتے ہیں۔ نماز، درود شریف، ذکر واذکار صدقہ و خیرات کا اہتمام کرتے ہیں تو حیران کن طور پر ہمارا امیونٹی سسٹم مضبوط ہوتا ہے اور سائنسی بنیادوں پر اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے یہاں تک کہ اب spirtual immunity system کی بھی ایک نئی اصطلاح سامنے آنے لگی ہے۔ یقین کریں کہ قدرت نے سب طاقت آپ کے اندر رکھی ہے اپنی سوچ کا فوکس بیماری، موت، خوف سے ہٹا کر صحت مند زندگی اور یقین کی طرف کر لیں۔ دوسروں کے دکھ درد کو بانٹیں۔ ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کریں یہ سب کام آپ کو روحانی تقویت بھی دیں گے اور آپ کے مدافعتی نظام کو توانا رکھیں گے۔ نیویارک کے ہسپتال میں سینکڑوں کرونا مریضوں کا علاج کرتے ایک ڈاکٹر کی بات یاد رکھیں جو کہتا ہے کہ وائرس اتنا خطرناک نہیں، لوگوں کا کمزور امیونٹی سسٹم اصل خطرہ ہے۔