جب سے کورونا وائرس نے ہماری زندگیوں کو یرغمال بنایا ہے ہمارے علمائے کرام عوام سے متعدد بار توبہ استغفار کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔ اسی گزشتہ جمعہ بھی علماء کرام نے عوام سے توبہ کرنے کی اپیل کی اور اگر دیکھا جائے تو مارچ کے وسط سے لاک ڈائون والی کیفیت شروع ہوئی تھی۔ ہم تب سے لے کر اب تک ہر جمعے کو اللہ کے حضور سے استغفار کرتے ہیں۔ یہ کم و بیش چودہ جمعے بنتے ہیں زبانی کلامی توبہ رب کے حضور قبولیت کیوں نہیں پاتی اس لئے کہ ہم منہ سے توبہ کرتے ہیں مگر بے ایمانی کرنا نہیں چھوڑتے، ہم توبہ کرتے ہیں مگر ذخیرہ اندوزی کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ ہماری زبانی کلامی توبہ ہمیں موت کے اس قاتل موسم میں بھی مصیبت کے ماروں سے ناجائز منافع کمانے سے نہیں روکتی بلکہ ہمیں اور سرگرم کر دیتی ہے۔ ہم لاشوں کے ڈھیر پر تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ہم کورونا وائرس سے بھی زیادہ ظالم اور سفاک لوگ ہیں۔ بیماری سے لڑتے موت کے منہ سے نکلنے کی تکلیف دہ جدوجہد میں مصروف کورونا کے مریضوں کے لئے اگر کسی دوا میں شفا کے آثار نظر آتے ہیں تو ہم اس دوا کو دکانوں سے غائب کروا دیتے ہیں تاکہ پھر بلیک میں فروخت کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔
کورونا کے تشویش ناک مریضوں پر ابتدائی تجربات میں دوا ڈیکسا میتھاسون کے بہتر نتائج کیا سامنے آئے کہ اس اعلان کے ساتھ ہی کہ ڈیکسا میتھا سون کورونا کے مریضوں پر استعمال کروائی جائے گی، اس دوا کی قیمتیں کئی سو گنا تک بڑھ گئیں۔ پانچ سو روپے کی دوا ایک ہزار روپے میں فروخت ہونے لگی۔ ہر جمعے کو توبہ استغفار کرنے والے اس معاشرے کے منافق تاجر کو جب پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو دوا مارکیٹوں سے غائب کر دی گئی۔ عام حالات میں وافر دستیاب دوا مارکیٹ میں نایاب ہو گئی کیونکہ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر پر پڑے درد سے تڑپتے ہوئے مریضوں کو اس دوا سے شفا مل سکتی تھی۔ اس دوا سے افاقہ ہو سکتا تو ان کے اسلامی اور پاکستانی بھائیوں نے اس دوا کو مارکیٹ سے غائب کروا دیا تاکہ وبا کے اس عذاب موسم میں لائف سیونگ دوا کو منہ مانگے داموں فروخت کر کے اپنی تجوریاں بھر سکیں اور پھر جمعے کی نمازوں میں وبا سے بچنے کے لئے اللہ کے حضور اجتماعی توبہ و استغفار کریں۔
ہم سا بڑا منافق اور بددیانت روئے زمین پر اور کون ہو گا۔ ہم تو وہ بدبخت ہیں جو اللہ اور رسولؐ کو دھوکہ دینے سے باز نہیں آتے۔ جھوٹ منافقت اور بددیانتی عام آدمی سے لے کر اہل اقتدار و اہل اختیار تک پھیل چکی ہے۔ اسی زندگی بخش دوا کے مسئلے کو لیجیے اور اہل اختیار کا رویہ ملاحظہ کیجیے۔ دوائوں کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے اور ان کو ذخیرہ اندوزی سے بچانے کے لئے سرکار کا ایک الگ محکمہ موجود ہے جسے ڈریپ کہتے ہیں یعنی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان اس نے 2015ء میں ڈرگ پرائسنگ پالیسی بنائی۔ 2018ء میں اسے دوبارہ ریوائز کیا گیا۔ قاعدے قوانین اصول اور ضوابط طے ہوئے کہ ہر قسم کی ضروری دوائیں دستیاب رہیں اور قیمتیں مریضوں کی پہنچ میں رہیں۔ زبانی کلامی تو بہت کام دکھائی دیتا ہے مگر جب کورونا کے مریضوں کے لئے ضروری ہر قسم کی دوائیں نہ صرف یہ کہ مہنگی ہو چکی ہیں بلکہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ منہ مانگی قیمت پر بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ڈیکسا میتھاسون کا انجکشن ہو، ایزومیکس ہو یا پھر حفاظتی تدبیر کے طور پر لینے والی وٹامن سی کی گولیاں ہوں ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے نایاب ہو چکی ہیں۔ دوائوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، وزارت صحت کے انڈر کام کرتی ہے۔ وزارت صحت ہی اس تمام chaosکے براہ راست ذمہ دار ہے ڈرگ پرائسنگ پالیسی پر عملدرآمد کو کس نے یقینی بنانا تھا۔ اگر اس کڑے وقت میں drapاور وزیر صحت انتہائی ضروری دوائوں کی ذخیرہ اندوزی اور کمیابی کو کنٹرول نہیں کر سکے تو اس کا بحران کا ذمہ دار ان کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے کیا آپ نے انگریزی کی وہ کہاوت نہیں سنی کہ
if you are not part of solution you are part of problem.
مشیر صحت ظفر مرزا اس صورت حال پر جواب دہ ہونے چاہئیں۔ لوگ پیٹ رہے ہیں کہ کووڈ۔ 19کے مریضوں کی ضروری دوائیں نہیں مل رہی اور ان کا جواباً یہ کہنا کہ دوا وافر موجود ہے صورت حال کی سنگینی کو کم نہیں کر سکتا۔ وبا کا عذاب سر پر موجود ہے اور چھوٹے بڑے تمام منافع خور میدان میں برسر عمل ہیں۔ سرجیکل ماسک آکسی میٹر ضروری دوائیں۔ سب کالے بازار میں فروخت ہو رہی ہیں۔ جسے عرف عام میں بلیک مارکیٹ کہا جاتا ہے اپنے کالے کرتوتوں کے ساتھ سارے منافقوں کے چہرے سیاہ ہیں۔ بدقسمتی سے پورا سماج ایسے سیاہ دل اور سیاہ رو منافقوں سے بھرا ہوا ہے۔ وبا کو ٹالنے کے لئے ہر جمعے کو توبہ استغفار کرنے آسمان سے فرشتے نہیں اترتے۔ یہی گروہ ہیں، اہل اقتدار سے عام آدمی تک۔ ہلکی بھاری چھوٹی بڑی۔ ہر قسم کی بددیانتیاں، منافقتیں۔ اب ہمارا لائف سٹائل بن چکی ہیں۔