یہ برقی پیغام، شہر اقتدار اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک ڈیلیوری بوائے کا ہے۔ گزشتہ کالم "پیزا کی خوشبو، ڈیلیوری بوائے کو بھی آتی ہے" کی فیڈ بیک کی صورت یہ پیغام ملا تو اسے ہائی لائٹ کرنے کی درخواست بھی کی گئی تھی۔ پہلے پیغام پڑھ لیں۔
"اسلام آباد میں ڈاکو، غریب فوڈ ڈیلیوری رائیڈرز کو لوٹنے لگے ہیں۔ اسلام آباد کے ایریاز f-10، f-12، g-7، g-8، g-10کے سیکٹر میں رات کو گھر گھر کھانا پہنچانے والے فوڈ رائیڈرز ڈاکوئوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکو ان کو موٹر سائیکلوں، موبائل فون اور نقدی سے محروم کر رہے ہیں۔ مزاحمت پر ایک رائیڈر کو گولیاں مار دی گئیں۔ وہ غریب، اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس لاقانونیت کا ذمہ دار کون ہے۔ فوڈ کمپنی بھی ان کے نقصان کا ازالہ نہیں کرتی۔"اسلام آباد میں کام کرنے والے فوڈ رائیڈر سید حامد شیرازی نے اپنے ہم پیشہ بھائیوں کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی اور ظلم پر آواز اٹھائی ہے اور بتایا ہے کہ ریاست اور فوڈ کمپنی سے مایوس ہو کر تمام رائیڈرز نے مل کر ایک ایسی کمپنی بنائی ہے کہ وہ ہفتہ وار بنیادوں پر چندہ جمع کرے گی اور متاثرہ رائیڈرز کی مالی امداد کرے گی۔
اسلام آباد جیسے بڑے شہر میں جہاں حکمرانوں کے بسیرے ہیں۔ جہاں عدل کی سب سے بڑی عدالت قائم ہیں۔ جہاں اونچے گریڈوں کے سرکاری افسر موجود ہیں۔ جہاں مقتدرہ قوتوں سے تعلق رکھنے والے اہل اختیار، زندگیاں گزارتے ہیں وہاں بدامنی، لاقانونیت اور ناانصافی کا یہ عالم ہے تو پھر پاکستان کے دوسرے چھوٹے اور بڑے شہروں میں خلق خدا کس حال میں جی رہی ہو گی۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اسلام آباد کی یہ صورت حال نہیں تھی کہ راتوں کو لوگ سڑکوں پر لٹ جائیں۔ بدقسمتی سے ایسی خبریں، زیادہ تر کراچی سے آیا کرتی تھیں۔ گن پوائنٹ پر بٹوہ اور موبائل لوٹنا اتنا عام تھا کہ اسے کرائم سمجھنا ہی چھوڑ دیا گیا۔ سڑکوں پہ اس طرح لٹنا شہر کراچی کا ایک طرز زندگی بن گیا۔ یہی ہمارا المیہ ہے کہ حالات کا رخ سدھارنے کی بجائے ہم اس کی بدصورتی سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔
ویسے بھی کسی غریب رائیڈر کا ڈاکو کے ہاتھ لٹ جانا گولیوں کے زخم کھانا اور اپنی جمع پونجی کے ساتھ ساتھ اپنی نوکری سے بھی محروم ہو جانا اقتدار والوں کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ نہ ہی ایسی کوئی خبر ہے جو امن و امان کے ذمہ داروں کو ہی یہ ہلا سکتی۔ سعداللہ شاہ صاحب کا کہا حسب حال شعر ہے:
یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے
اب سوچتے ہیں بیٹھ کر آئینہ ساز کیا
جس ملک کے فیصلوں اور پالیسیوں میں ایک عام آدمی ہمیشہ سے نظر انداز ہوتا آیا ہو۔ جہاں ترازو اہل اختیار کے حق میں جھکتے ہوں، وہاں کسی غریب کا سڑک پر لٹ جانا خبر بھی نہیں بنتا۔ کجا کہ کسی کالم کا موضوع بنے۔ کالم سیاسی بساط پر ہونے وہالے مناظروں، مظاہروں اور رسیہ کشیوں پر لکھے جاتے ہیں۔ اہل اقتدار کے مسائل اور اقتدار کی باری کا انتظار کرنے والی حزت مخالف کی سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ، سیاسی بساط پر چلنے والی ان کی چالوں اور اہل سیاست کی چالبازیوں پر لکھے جاتے ہیں۔ غریب شہر کے مسائل، خبروں، تبصروں اور تجزیوں کے لئے کوالیفائی بھی نہیں کرتے۔ اس میں نہ کوئی سنسنی خیزی ہے نہ کوئی گلیمر، تو پھر خبروں کا شہر بھی ان کے دم سے ہی آباد ہے، جنہیں غریب کا درد اس وقت اٹھتا ہے جب وہ اپوزیشن میں ہوں یا پھر الیکشن مہم میں حصہ لے رہے ہوں۔ جس طرز کی جمہوریت ہمارے ہاں موجود ہے اس میں عام آدمی سیاست کے کھیل کا محض ایک تماشائی ہے اور بس!اس کے مسائل کا تذکرہ، سیاسی جلسوں میں کیا جا سکتا ہے، کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس کے درد کا رونا رویا جا سکتا ہے مگر جب آپ شہر اقتدار میں داخل ہو جائیں، حکمرانی کی مسند سنبھال لیں تو پھر غربت اور ظالم مہنگائی سے تنگ آ کر خودکشی کرنے والوں کی خبر پر بھلے آرام سے کہہ دیں کہ میں کیا کروں۔
یہاں کے حکمران بھی کسی شعبدہ باز سے کم نہیں آئے۔ مسند اقتدار حاصل کرنے کے لئے وہ ایک شعبدہ باز کی طرح مجمع لگاتا ہے۔ اپنی چرب زبانی سے مجمعے کا دل لبھاتا ہے۔ چھپاتا کچھ ہے نکا لتا کچھ ہے۔ وہ مجمعے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے مسمر ائزکرتا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ سب شعبدہ بازی کا کمال تھا کہ مجمعے کی آنکھوں میں آرام سے دھول جھونک دی بہتر سالوں سے ہمیں ایسے ہی شعبدہ باز حکمران ملے جو صرف اور بیانات اور خوش کن اعلانوں سے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اور پھر آج کل قول و فعل میں تضاد کے لئے ہم نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے۔ یو ٹرن لینا، اور اس کو نئے معنی بھی ہمارے حکمرانوں نے دیے ہیں۔ جن کے نزدیک یوٹرن لینا ہی لیڈر شپ ہے۔ سہولتیں صرف اہل اقتدار کو میسر ہیں ورنہ عام آدمی کے بنائے گھروں، دکانوں اور شادی ہالوں کو سرکار کی مشینری مسمار کر دیتی ہے لیکن بات اہل اقتدار کی ہو تو قانون، ضابطے، اصول سب کے سب موم کی ناک ثابت ہوتے ہیں۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں ہے
آج 25دسمبر ہے بے مثل، عظیم رہنما بابائے پاکستان محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے۔ سوچتی ہوں اس قوم کی قسمت بھی کیسی ہے کبھی، اسے ہی قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسا عظیم کردار لیڈر بھی میسر آیا تھا اور پھر اس کے بعد لیڈر شپ پر ایسا زوال آیا کہ قوم کی تقدیر، شعبدہ بازوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ وہ باوقار شخص، ہزاروں کعے مجمع میں انگریزی میں بات کرتا تو ایک ان پڑھ بھی اسے غور سے سنتا تھا اس یقین کے ساتھ کہ وہ جو کہتا ہے سچ کہتا ہے اور آج زوال یہ ہے کہ سیاست کا دوسرا نام ہی جھوٹ ہے۔