پاکستانی قوم کورونا کے سائے میں عید منانے کے خیال سے پہلے کچھ اداس اور پژمردہ سی تھی کہ عید کے مسافروں کی اڑان بھرنے والا جہاز کراچی میں تباہ ہو گیا۔ اس حادثے نے پوری قوم کو ایک بڑے دکھ سے ہمکنار کر دیا۔ مصائب اور تھے پر جی کا جانا، عجیب اک سانحہ سا ہو گیا ہے!لگتا ہے دل کے آس پاس کوئی چیز ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔ روح کی سنسان گلیوں میں اداسی پھیرے لگاتی ہے اور اس پر عید کی آمد کا احساس جو ہمارے ہاں روایت کے مطابق اپنوں کی دید سے جڑا ہوا ہے۔ اس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے۔ عید اگر وبا کے دنوں میں بھی آئے تو پردیسیوں کو گھر جانے کا خیال ستانے لگتا ہے۔ عید تو اپنوں کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے۔ بے شک سماجی دوری اور سماجی فاصلے کا زمانہ ہو، لاہور سے اڑان بھرنے والا طیارہ ایئربس 320پر سوار ہونے والے سارے مسافر بھی اپنوں کی دید کر کے عید منانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے سامان میں دید کی اس خواہش کو رکھا اور لاہور سے سفر آغاز کیا۔ ٹھیک دوپہر ایک بجے طیارے نے لاہور سے اڑان بھری۔ صرف ایک گھنٹے کا سفر ہی تو تھا آنکھ جھپکتے میں طے ہو گیا۔ کراچی کی فضائوں میں اڑن کٹھولہ داخل ہو گیا تو پردیسی مسافروں کے دلوں میں دید کی خواہش اور بھی مچلنے لگی۔ اس شام کراچی کے کئی گھروں میں افطار پر خاص اہتمام کی تیاریاں تھیں جتنے مسافر اتنے گھرانے اتنے خاندان اور اتنی ہی کہانیاں۔ کہانی یہاں تک بہت خوب صورت تھی۔ خوشی زندگی اور خواہش سے بھری ہوئی، بس کہانی تھی ہی یہیں تک۔ اس کے بعد تقدیر نے اس کہانی کا انجام لکھنا تھا مگر اس کہانی کے کرداروں کو خبر نہیں تھی کہ یوں بیچ راستے میں، زمین سے اوپر کہیں فضائوں میں ان کی زندگی کی کہانی ختم ہو رہی ہے اور عین اس وقت جب ان کے دل اپنوں سے ملنے کی خواہش میں اڑن کٹھولے کی مانند اڑے جاتے تھے۔ سامان میں عید کے نئے جوڑوں کے ساتھ دید کی یہی خواہش تہہ کر کے رکھی ہوئی تھی۔ طیارہ لینڈنگ کے قریب تھا کہ پائلٹ اعلان کر چکا تھا پھر کچھ ہی دیر میں پتہ چلا کہ کوئی تکنیکی خرابی ہے نیچے آ کر دوبارہ اوپر کی طرف اڑان بھری اور کہانی ختم ہوئی۔ طیارہ ڈولتا ہوا کراچی کی ایک بے خبر آبادی پر گرا۔ آگ کے آسمان تک بلند ہوتے شعلے۔ دھواں چیخ و پکار موت نے کہانی کا اختتام لکھ دیا تھا۔ عید کے کپڑوں کے ساتھ تہہ کر کے رکھی ہوئی اپنوں کی دید کی خواہش گھر کی دہلیز تک پہنچنے سے پہلے ہی راکھ ہو گئی۔ ایسی دغا باز زندگی ایسی بے ثباتی کہ انسان بے بسی کی حیرت سرا میں سوچتا رہ جائے۔ یااللہ یہ کیسا کھیل بنایا ہے تونے زندگی کا کوئی بیمار ہو۔ بستر مرگ پر ہو تو موت کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن زندگی کیا ایسے بھی دغا دے جاتی ہے جو مسافر بے خبر تھے کہ وہ موت کی طرف اڑان بھر رہے ہیں اور ان کی منزل زندگی نہیں۔ موت تھی۔ اور وہ تو اپنے اپنے گھروں میں محفوظ تھے۔ نہ سفر تھا نہ سفر کی کلفتیں۔ انکے گھروں پر ایک اڑن کٹھولہ بلائے ناگہانی کی طرح گرا اور قیامت ڈھا گیا۔ ان کی بھی زندگی سے جڑی اپنی اپنی کہانیاں ہوں گی۔ اس شام افطاری کا اہتمام رمضان کے آخری دن عید کی تیاریاں۔ اپنوں کو ملنے ملانے کے پروگرام سب کچھ آن واحد میں ایک اختتام کو پہنچا۔ کہانی اچانک ہی آخری موڑ لے لیتی ہے اور اس کہانی میں رنگ بھرتے کرداروں کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا کہ بس اب اگلا موڑ جدائی کا ہے۔ دو مسافروں کے اس آتش فشاں سے زندہ بچ جانے سے مولائے علی کرم اللہ وجہہ کا یہ فرمان اپنی پوری حقانیت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے کہ موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ پنجاب بنک کے صدر ظفر مسعود اور کراچی کے ایک شہری زبیر کا طیارے کے حادثے سے بچ جانا معجزہ ہے۔ معجزہ وہ جو موت بھی دیتا ہیاور زندگی بھی! جانے والے تو جسم کی دہلیزیں چھوڑ کر فصیل زندگی کے پار کسی اور جہان میں اتر جاتے ہیں۔ وچھوڑا پیچھے رہ جانے والوں کو مار دیتا ہے۔
2006ء میں میری عزیز دوست کی بھابھی ڈاکٹر حمیرا ملتان سے لاہور آتے ہوئے طیارے کے حادثے میں باقی تمام بدقسمت مسافروں کے ساتھ جاں بحق ہو گئی تھیں ان کی تین سالہ بیٹی نے اپنی ماں کی میت کی جگہ ایک بند تابوت دیکھا اور جلا ہوا کچھ سامان جس سے ان کی پہچان ہوئی وہ تین سال کی ناسمجھ بچی اب کالج کی طالبہ ہے لیکن آج بھی لکڑی کے بند تابوت اور جلی ہوئی چند چیزوں میں اپنی ماں تلاش کرنے کے وہ ہولناک لمحے اس کے شعور اور لاشعور پر قیامت ڈھاتے ہیں۔
2010ء میں ریڈیو براڈ کاسٹر اور بہت اچھی دوست سعدیہ مرتضیٰ کے جواں سال بھائی کا چارٹرڈ طیارہ کریش ہو گیا۔ وہی لکڑی کا تابوت اور جلا ہوا سامان۔ پھر زندگی میں ایک مستقل اذیت جانے والوں کی جدائی کی تکلیف اپنی جگہ مگر آخری دیدار کے نام پر صرف لکڑی کا بند تابوت ہو تو جدائی کی ہولناکی اور بڑھ جاتی ہے۔ دکھ کی شکست و ریخت سے دو چار دلوں پر اللہ صبر اور ڈھارس اتارتا ہے۔ تبھی تو زندگی کا سفر چلتا رہتا ہے۔ یہ کالم نہیں میری طرف سے دلی تعزیت کا اظہار ہے۔ عید کے ہنگام میں یہ سانحہ دلوں کو عجیب دکھ سے ہمکنار کر گیا ہے۔ زندگی کی بے ثباتی عجب طرح سے سوچ پر قیامت ڈھاتی ہیٖ میں زندگی کو شہر وصال کہوں تو آخر میں اپنے پسندیدہ شاعر افتخار عارف کا ایک مصرع دہراتی ہوں۔
"شہر وصال سے آنے والی ہوائیں ہجر انگیز بہت ہیں "