تاریکیوں کو منور کرنے والے سورج جیسے لوگ، رخصت ہو رہے ہیں چھتنار درختوں جیسے ثمر بار لوگ رخصت ہو رہے ہیں اپنی اپنی بساط میں زمین کا بوجھ اٹھانے والے بڑے لوگ رخصت ہو رہے ہیں۔
کس کا نوحہ کہیں اور کس کو بھول جائیں۔ موت برحق ہے سب پہ آنی ہے سب کی باری سے۔ مگر یہ جو وبا کے سفاک موسم میں ارزانی ہوئی ہے کہ ایسے قیمتی نامور لوگ زرد پتوں کی طرح شجر زندگی سے جھڑتے چلے جاتے ہیں شہر کا منظر نامہ ویران ہو رہا ہے۔
جامع بنوریہ کے مفتی نعیم بھی اسی وبا کے موسم میں رخصت ہوئے۔ اتحاد بین المسلمین کی شاندار مثال تھے۔ صرف 62برس کی عمر میں چل دیے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ان کے آبائو اجداد پارسی تھے۔ ان کے دادا نے اسلام قبول کیا اور پھر مفتی نعیم جیسا فرزند اسلام ان کے خاندان میں پیدا ہوا، دین میں رواداری اور کشادہ دلی کی اعلیٰ مثال۔ ان کے انتقال کے اگلے روز علامہ طالب جوہری کا بھی بلاوا آ گیا۔ کیا شاندار خطیب تھے۔ بے بدل عالم اور ذاکر محرم میں پی ٹی وی پر پڑھی جانے والی شام غریباں ہماری یادوں کا حصہ ہے۔ 10محرم کو رات گئے شام غریباں لگتی تو ہماری والدہ مرحومہ بہت اہتمام سے یہ شام غریباں سنتی اور ناصر جہاں کا پرسوز سلام آخر پرنم آنکھوں سے ہم سب گھر والے سنا کرتے تھے۔
علامہ طالب جوہری کا خطیبانہ انداز بھی کمال تھا قرآن کی آیت سے بات شروع کرتے اور کربلا کے کسی ایک دلسوز منظر تک پہنچتے۔ پہلے سے ہمہ تن گوش سامعین کو مکرر کہتے۔ بھئی توجہ دیجیے گا، اور اس پر ان کا پہلو بدل کر اس خاص نقطہ کو بیان کرنے کا انداز۔ کیسا سحر انگیز تھا۔ تحقیق اور علم کا ایک بہتا دریا، عدم کے سمندر میں اتر گیا۔ غالباً دو دن ہی گزرے ہوں گے کہ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا بلاوا بھی آن پہنچا۔ اس سے پہلے فیس بک پر ان کی اپنی لکھی ہوئی پوسٹ نظر سے گزری تھی۔ جس میں وہ دعا کے لیے کہہ رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ان کی بیماری پیچیدگی اختیار کرتی جا رہی تھی۔ میں نے بھی اس پوسٹ پر ان کی صحت اور زندگی کے لئے دعا اور نیک تمنائیں تحریر کیں۔
مجھے نہیں معلوم کیوں مگر میں ان کے لئے نماز کے بعد ہی خصوصی دعا کرتی رہی۔ ان دنوں تمام بیماروں کی شفایابی کے لئے دعا معمول کا حصہ ہے۔ اندازہ نہ تھا کہ بیماری ایسی پیچیدگی اختیار کر چکی ہے کہ جان لے کر ہی ٹلے گی۔ ڈاکٹر مغیث الدین کی رحلت کی خبر نے ان کے ہزاروں طالب علموں میں گویا صف ماتم بچھا دی ہے۔ وبا کی سفاکی ہے کہ لوگ انہیں اس طرح رخصت کرنے نہ جا سکے جو ان کا حق تھا۔ سوشل میڈیا پر ان کی یاد میں پوسٹیں آنسو کی طرح گر رہی تھیں۔ ڈاکٹر مغیث سے میری ملاقاتیں، ریڈیو پاکستان لاہور کے نیشنل ہک اپ پر چلنے والے پروگرام پنجاب آن لائن میں ہوئیں۔ یہ کرنٹ افیرز کا پروگرام تھا اور اس میں بڑے نامور تجزیہ کار شرکت کیا کرتے تھے۔ منو بھائی، بریگیڈیئر فاروق حمید خان، ڈاکٹر حسن عسکری، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، بطور تجزیہ کار پروگرام میں شرکت کرتے۔ وائس آف جرمنی سے وابستہ صحافی تنویر شہزاد بھی ماڈریٹر کے طور پر شرکت کرتے۔ پروگرام کے ہیڈ ممتاز براڈ کاسٹر اور ماہر تعلیم احمد شیخ صاحب ہوتے جو اس وقت نیشنل براڈ کاسٹنگ سسٹم کے سربراہ تھے۔
ڈاکٹر مغیث خوش لباس اور خوش ذوق انسان تھے۔ حب الوطنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ پاکستانیت کے جذبات سے لبریز رہتے۔ استادوں کے استاد ہونے کے باوجود ان کی طبیعت میں انکسار تھا۔ ان میں جونیئر ترین لوگوں کو سراہنے کا ظرف موجود تھا۔ ریڈیو چھوڑنے کے بعد ان سے فون پر رابطہ رہا۔ آخری ملاقات اسی برس مارچ میں ہوئی۔ غالباً چھ یا سات تاریخ تھی۔ یو ایم ٹی ریڈیو نے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ایک انٹرویو کے لئے بلایا تھا۔ پروگرام کی آر جے سعدیہ رفیق عزیز دوست بھی ہیں تو میں نے سوچا کہ شاید سعدیہ نے مجھے دوست سمجھ کر یاد کیا ہے۔ مگر جب اس نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر مغیث نے بطور خاص آپ کا نام دیا تھا کہ ان سے انٹرویو کریں، تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی۔ انٹرویو کے بعد میں ڈاکٹر صاحب سے ان کے آفس میں ملنے گئی تو بہت خوشی دلی سے ملے۔ چائے اور مٹھائی سے مہمان نوازی کی اور مجھے اپنی خود نوشت سسکتی مسکراتی زندگی بھی عنایت کی۔
اس ملاقات میں ڈاکٹر مغیث نے میرے کالموں کو بہت سراہا اور مجھے کہا کہ اگلے سمسٹر میں یہاں کالم نگاری پڑھائیں۔ میں چاہتا ہوں کہ نئے لوگ جو اس میدان میں آ گے آئیں ہیں ان کے تجربے سے بھی ہمارے طالب علم سیکھیں، افسوس کہ ڈاکٹر صاحب اگلے سمسٹر سے پہلے ڈاکٹر اگلی منزل کو روانہ ہو گئے۔ کمال کی زندگی انہوں نے گزاری۔ ہمہ وقت متحرک، سیکھنے اور سکھانے پر آمادہ۔ اپنے شعبے کی نئی جہتوں کو دریافت کرنے کے جذبے سے معمور۔ حیران کن کوششوں سے تعلیمی صحافت کے شعبے کو نئی منزلوں سے روشناس کرایا۔ اپنے مقصد میں یکسو، ہر گام ایک نیا خواب دیکھتے اور اس کی تعبیر حاصل کرنے کی لگن میں جت جاتے۔ تدریس سے عشق کیا اور ایسا عشق کہ اب اپنی درس گاہ کی مٹی اوڑھ کر سو رہے ہیں۔ وہ گیلی مٹی سے خوابوں کے چہرے گوندھنے والے ہنر کار تھے۔ خدا ان کی قبر کو آسودہ رکھے۔ آمین۔