مختار مسعود کی لازوال کتاب آواز دوست میں ان کی نیلے رنگ کی آٹو گراف بک کہانی کے ایک مسلسل کردار کی طرح شروع سے آخر تک شامل رہتی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں جب بڑے لوگوں سے آٹو گراف لینے کا شوق اکثر طالب علموں کو ہوتا ہے۔ نیلے رنگ کی یہ آٹو گراف بک بھی مختار مسعود کے زمانہ طالب علمی کی ساتھی تھی۔
میرے پاس نیلے رنگ کی آٹو گراف بک تو نہیں مگر بہت سی ڈائریوں میں ایک سرمئی رنگ کی ڈائری بھی ہے جو ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے اور مجھے زمانہ طالب علمی کے اس دور کی یاد دلاتی جب زندگی اور سماج کے حوالے سے سنہری خوابوں کے قافلے، لہو میں رواں دواں تھے۔ جب ہم اپنی ناسمجھی میں آئیڈیل کے بت اپنے جذبوں سے تراشتے تھے۔ جب معاشرے کی اونچ نیچ، سماجی ناانصافی دیکھ کر ناانصافی اور عدم مساوات کے رسموں رواجوں کو بدل دینے کا عزم ہمیں بے چین رکھتا تھا۔
زندگی کو برتا نہیں تھا، سو اچھی باتوں کے پیچھے چھپی ہوئی منافقت کے چہرے ہم سے اوجھل رہتے تھے۔ وطن کی بات کرنے والا پسے ہوئے طبقے کے حقوق کی بات کرنے والا ہمیں اپنا ہیرو اور آئیڈیل لگتا۔ معاشرے پسے ہوئے طبقے کے لئے دل درد سے بھرا رہتا تھا۔ ان دنوں حبیب جالب کی کتاب ہاتھ آئی تو کم و بیش آدھی کتاب اپنی ڈائری میں نوٹ کر لی۔ ایسے انقلابی اشعار لہو میں دھمال ڈالتے۔
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں /چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں /تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر/میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
90کی دہائی پے درپے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ادھ پچد حکومتوں میں ٹوٹتے ہوئے خوابوں کی بازگشت اور سیاسی رہنمائوں سے مایوسی کی کیفیت تھی کہ میں نے یہ تین لائنوں کی ایک چھوٹی سی نظم کہی:
یہ مرے عہد کا سانحہ ہے/رہبروں کا ہجوم قافلے کو لے کر/راہ فرار پر رواں دواں ہے
اسی دہائی میں کرکٹ ہیرو عمران خان کا سیاسی منظر نامے پر ابھرنا، تحریک انصاف کے نام سے نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔ اب پرانی آزمائی ہوئی سیاسی قوتوں کے مقابل ایک نئے سیاسی رہنما کی انقلابی سوچ نے اس دور کے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ عمران خان بطور کرکٹ ہیرو تو پورے پاکستان کی آنکھوں کا تارہ تھا، عالمی سطح پر گلیمرس شخصیت نے جب سماجی اور معاشی انصاف کا نعرہ بلند کیا تو اس کی آواز دل اور روح تک اتر گئی۔ دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ۔ غریب اور امیر کے لئے ایک قانون کا خواب، کسے اچھا نہ لگتا۔ انہی دنوں میں نے عمران خان کے لئے اپنی سرمئی ڈائری میں ایک شعر لکھا تھا۔
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
دل کو یقین تھا کہ حالات ضرور بدلیں گے۔ فطری طور پر معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے ساتھ درد کا رشتہ استوار تھا۔ ہر مظلوم ہر نادار اور ہر بے کس کے ساتھ دل دھڑکتا تھا۔ انہی دنوں سرمئی ڈائری میں میں نے ایک چھوٹی سی نظم نوٹ کی تھی اب یاد نہیں کہ کہاں پڑھی تھی۔ مگر اپنے منفرد خیال کی بدولت دل میں اتر گئی۔ راہ سفر میں فرد پہ جتنی گرد پڑی ہے/جمع کریں تو شاید اس سے/ہر بے گھر نادار کی خاطر/ایک مکاں اک گھر بنایا جا سکتا ہے
آہ اب پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ خواب اب ایک عذاب سے دوچار ہیں۔ آئیڈیل کے بت چکنا چور ہو چکے ہیں۔ دور سے جو ہستیاں دکھائی دیتی تھیں قریب آنے پر پستیاں نظر آنے لگیں پھر زندگی نے باور کرایا کہ لفظوں کے برتن اندر سے خالی ہوتے ہیں۔ خواب ٹوٹنے کے لئے ہوتے ہیں، وعدے جھوٹے ہوتے ہیں، دعوے غلط ہوتے ہیں آئیڈیل ریت کا بت ثابت ہوتے ہیں اور خواب بالآخر عذاب میں ڈھل جاتے ہیں۔
سرمئی ڈائری پر اپنے خواب تحریر کرنے والی طالبہ آج نارسا خوابوں کی کہانی اپنے کالموں کی صورت تحریر کرتی ہے۔ جو سنائی دیا وہ جھوٹ تھا جو دکھائی دیا وہ سب دھوکہ تھا۔ جو حقیقت کی صورت نظر آ رہا ہے وہی سچ ہے اور سچ یہ ہے کہ غریب کے لئے گھر بنانے کا خواب صرف شعرو شاعری میں پروان چڑھتا ہے۔ سماجی ناانصافی کی حقیقتیں بہت تلخ ہیں۔ یہاں غریبوں کی بستیاں مسمار کر دی جاتی ہیں۔ بھوک پیاس کاٹ کر جوڑی ہوئی رقم سے تعمیر کئے ہوئے خستہ مکان بلا توقف بلڈوز کر دیے جاتے ہیں، جبکہ اہل اختیار کی غیر قانونی بستیوں کو، ہل اقتدار کے غیر قانونی تعمیر شدہ محلات کو، سہولت سے بچا لیا جاتا ہے۔ اماں رشیداں کے آنسو مجھے نہیں بھولتے۔ سردیاں عروج پر تھیں اور اس کی غریب بستی کو ڈھانے کے ایل ڈی اے کے بلڈوزر پہنچ گئے۔ کھاڑک نالے سے ادھر سید پور کی غریب بستی موجود ہے، یہاں بسنے والے صبح سویرے ہی گھروں سے کام کو نکل جاتے ہیں۔ اماں رشیداں بھی انہی میں سے ایک تھی۔ واپس آئی تو چھتیں کمروں میں موجود سامان پر اوندھی پڑی تھیں۔ سرکار کا حکم تھا کہ یہ غیر قانونی بستی آباد ہے۔ مگر سرکار کا یہ قانون اس وقت کیوں گونگا بہرہ، لولا لنگڑاہو جاتا جب اسے اہل اقتدار کے غیر قانونی تعمیر شدہ محلات سے واسطہ پڑے تو پھر قوانین میں بھی اشرافیہ کی سہولت کے مطابق تبدیلی کر دی جاتی ہے۔
90ء کی دہائی میں ہم نے اپنے خوابوں اور امیدوں کی کشتیوں کو جس شخصیت کے ساحل پر لنگر انداز کرتے ہوئے سرمئی ڈائری میں لکھا تھا کہ یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی، اب کرکٹ کی وہی کرشماتی شخصیت اس ملک کی حکمران ہے۔ غریب کے لئے معاشی اور سماجی انصاف کا نعرہ اقتدار کی غلام گردشوں میں کہیں کھو گیا ہے۔
وعدے جھوٹے اور دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ ہماری امیدوں اور خوابوں کی کشتیاں ہچکولے کھا رہی ہیں۔ سرمئی ڈائری میں لکھی، دنیا کو بدل دینے کی تحریریں پھیکی پر گئیں ہم زندگی میں سمجھوتے کر چکے ہیں۔ سرمئی ڈائری اب اداس ہے!