Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Umeedon Ka Anti Climax

    Umeedon Ka Anti Climax

    آج 5جنوری 2020ء ہے۔ نئے سال کی پہلی اتوار۔ قومی منظر نامے سے عالمی منظر نامے تک وسوسوں اور خدشات کے بادل چھائے ہیں۔ خوف اور مایوسی کی پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔

    دانستہ سال کے پہلے دو کالموں میں حالات حاضرہ پر تبصرے سے گریز کیا۔ کیونکہ جان کیٹس کے الفاظ میں صورت حال ابھی ایسی ہے کہ to be think is to be full of sorrowقومی منظرنامے پر سال کا آغاز ہی خوابوں امیدوں کے اینٹی کلائمکس سے ہوا۔ یہ عمران خان کی 22برس کی سیاسی جدوجہد کے خوابوں کا اینٹی کلائمکس تھا۔ نیب آرڈی ننس ان تمام امیدوں اور آدرشوں کا اینٹی کلائمکس تھا جو کپتان کی ذات سے اس کے مداحین اور فالورز نے وابستہ کر رکھی تھیں۔

    وہ سیاستدان جس کی سیاسی جدوجہد کی بنیاد ہی انصاف، احتساب اور کرپشن کے خلاف جنگ پر تھی اس کی حکومت میں نیب آرڈیننس کا سیاسی سمجھوتہ کسی المیے سے کم نہیں۔ المیہ ہی تو ہے کہ ؎

    ہوا بھی ہو گئی میثاق تیرگی میں شریک

    کوئی چراغ نہ اب رہ گزر میں رکھا جائے

    یہ تو سیاسی آئیڈیلزم کا اینٹی کلائمکس ہے۔ ایک اور اینٹی کلائمکس وہ بھی تھا جس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے۔ نئے سال کے آغاز کی نوید سنائی پٹرول و ڈیزل ایل پی جی کی قیمتیں مزید بڑھا کر اور عوام کی زندگیوں کو مشکل تر بنا کر خوشحالی کی نوید سنانے والے نجانے کس سیارے کی مخلوق ہیں۔

    عوام نے پورا سال حکمرانوں کا جھوٹ سنتے ہوئے گزارا اور اب تو ایسے کھلے جھوٹ سے اور جھوٹ بولنے والوں سے سخت کوفت ہونے لگی ہے۔ نئے سال میں ایک احسان ہم پر یہ ضرور کریں کہ آپ کے جی میں جو مرضی آئے کرتے رہیں، گیس مہنگی کریں بجلی مہنگی کریں، پٹرول، ڈیزل، ایل پی جی کی قیمتیں ہر ہفتے بڑھائیں، عوام کو بے موت مارتے جائیں لیکن خدا کے لئے اس کھلے ظلم کو خوشحالی نہ کہیں۔ آپ عوامی بسوں کے روٹ بند کر کے غریب شہر کی آمدورفت کو عذاب بنا دیں لیکن اس کھلے ظلم کو خوشحالی اور تبدیلی کہہ کر ان لفظوں سے ان کے اصل معنی نہ چھینیں۔

    آپ چاہیں تو لنگر اور پناہ گاہیں بنا بنا کر پاکستان کو بھکاری بنا دیں۔ لوگوں کو ہاتھ پھیلانے کی ترغیب دیتے رہیں۔ روزگار نہ دیں بھیک دیں لیکن اس بھکاری پنے کو اور بھوک اورننگ کے کلچر کو انصاف اور غربت کے خاتمے سے تعبیر نہ کریں۔ خداکے لئے اور کچھ نہیں کر سکتے تو اپنے منہ بند رکھیں۔ اپنے حواریوں سے کہیں کہ اپنے ٹی وی سکرینوں پر آکر جھوٹ کے شیش محل بنانا بند کریں۔ اور اگر آپ اپنی فطرت سے مجبور ہیں اور آپ بائی ڈیفالٹ جھوٹ بولنے کے عادی ہو چکے ہیں، اتنے عادی کہ اگر جھوٹ نہ بولیں تو آپ کا سانس لینا ایسے ہی دشوار ہونے لگتا ہے جیسے نشئی کو نشہ نہ ملے تو اس کا بدن ٹوٹنے لگتا ہے، یہ جھوٹ بولنا آپ کے لئے ایک ایڈکشن کی طرح ہے تو پھر خدا کے لئے جھوٹ پر مبنی ان لمبی لمبی تقریروں میں قرآن و حدیث کے حوالے دینا چھوڑ دیں، قسمیں کھانا بند کریں اور اپنی طرز حکومت کا ریاست مدینہ سے موازنہ کر کے ہمارے صبر کا امتحان مت لیں۔ صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں ہر شے کی قیمتیں کئی سو گنا بڑھ گئیں تبدیلی کے آسیب نے ہمارے روزگار ختم کئے، نوکریوں والے بھی رل گئے اور اپنے کاروبار والے بھی خوار ہو گئے۔ کاروبار زندگی میں ایسا ٹھہرائو آیا کہ دیہاڑی داروں پر غربت اور بھوک کے برے دن آ گئے۔ بڑے کاروبار کا پہیہ چلتا ہے تو اس سے منسلک مزدور اور دیہاڑی داروں کے گھروں میں چولہا چلتا ہے۔ فیصل آباد میں لاکھوں مزدور جو پاور لومز کے کام سے وابستہ تھے بے روزگار ہو گئے۔ چھوٹی دکان والا ریڑھی پر اور ریڑھی والا چھابڑی پر آ گیا۔ یہ بھکاری کی کوئی لفاظی نہیں۔ نئے پاکستان کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ باہر نکل کر پوچھیں کسی غریب شہر سے آپ کو تبدیلی کے مطلب سمجھا دے گا اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار ویڈیوز پڑی ہوئی ہیں مختلف پروگراموں کے کلپس موجود ہیں کوئی رکشے والا۔ کوئی مزدور۔ کوئی دیہاڑی دار کیسے، اپنے حالات زندگی بتاتے ہوئے اپنی غربت اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں عذاب بنتی زندگی پر رو رو کر دہائی دینے لگا۔

    معیشت میں استحکام ہو رہا ہے۔ روپیہ سنبھلنے لگا ہے۔ معاشی اعشاریے بہتر ہو رہے ہیں۔ 2020ء خوشحالی کا سال ہو گا۔ ہمیں یہ جھوٹ، لفاظیاں سمجھ نہیں آتیں۔ معیشت بہتر ہو گی اس دن جب عوام کی زندگی میں خوشحالی آئے گی۔ جب مزدور اور دیہاڑی داروں کے معاشی اعشاریے بہتر ہوں گے۔ ابھی تو ان کے ہاتھ سے نوالے چھین لئے گئے ہیں۔ چولہے ٹھنڈے اور چنگیریں خالی ہیں۔ بھوک بھرروٹی عزت سے میسر نہیں۔ نئے سال کے پہلے روز ڈسکہ میں پناہ گاہ کا افتتاح کرنے کے بعد اسے تالا لگا دیا گیا۔ خبر ریکارڈ پر موجود ہے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ !مختصر یہ کہ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی عوام کے عوام اقتدار و اختیار کے تمام گروہ ایک پیج پر ہیں اور مفاد کی اس کہانی میں عوام کا تذکرہ کہیں نہیں ہے۔