اپنے کالموں کی ایک حساس اور باذوق قاری کے برقی پیغامات آپ سے شیئرکرتی ہوں۔ ایک فوتگی کی وجہ سے کل گھر سے نکلنا پڑا۔ نہر سے ٹھوکر تک پندرہ منٹ میں پہنچ گئے، حالات نارمل ہی لگ رہے تھے۔ مگر ٹھوکر سے آگے ٹریفک کا برا حال تھا۔ شدید نعرہ بازی ہو رہی تھی۔ ملتان روڈ بند، رائے ونڈ روڈ بند اور سڑکوں پر بدقسمت شہری ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے۔
ایک نجی ہسپتال سے کچھ پیچھے ایمبولینس میں ایک ہارٹ پیشنٹ اس ہجوم میں زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا تھا، ایک اور تکلیف دہ منظر دیکھا، ایک بچہ جس کی عمر بمشکل ایک ماہ تھی بیمار تھا، اور بے چین ماں جلدازجلد اپنے بچے کو ہسپتال کی ایمرجنسی تک پہنچانے کی کوشش میں گاڑی سے اتر کر بچے کو ہاتھوں میں اٹھائے ہسپتال کی طرف بھاگی جا رہی تھی، بچے کا سانس اکھڑ رہا تھا، ماں کی اپنی حالت خراب ہو رہی تھی۔ کچھ دور تک لوگوں کو پرے ہٹا کر اسے راستہ بنا کر دیا۔ ماں کی ہمت بندھانے کی کوشش کی۔ آگے تو اللہ ہی اس کا وارث تھا، ہم بہت مشکل سے ایک یوٹرن لے کر واپسی کے لئے مڑے مگر ٹھوکر پر دو ٹرک لگا کر سڑک بلاک کر دی گئی تھی۔
کئی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ آگے چوک پر آگ لگائی گئی تھی۔ ای ایم ای پل پر بس سے اتری سواریاں دیکھیں۔ ایسی بدامنی تھی کہ خوف کی لہریں جسم کے مساموں تک جانے لگیں۔"یہ برقی میسج منگل کی سہ پہر مجھے موصول ہوا۔ جس وقت پورے پاکستان میں سڑکیں چوک چوراہے، ایک پراسرار سے انداز میں بند ہو رہے تھے۔ گھروں سے باہر لوگوں کو اس روز یقین نہیں تھا کہ وہ اس شام اپنے گھر واپس پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں اور جو بدقسمتی سے سڑکوں پر موجود تھے، انہیں اپنی عزت جان اور مال کے شدید خطرات لاحق تھے، بہت سے لوگوں نے نقصان اٹھایا۔ گاڑیوں کے شیشے تڑوائے۔ کہیں ہاتھا پائی ہوئی۔ کہیں بیمار اور زخمی ایمبولینسوں میں کراہتے رہے، بدامنی کی یہ بدصورت اور کریہہ صورت بس سوال ہی سوال ہے۔ سلگتے ہوئے بلکتے ہوئے تڑپتے ہوئے سوال۔ جنہیں تسلی بخش سچے اور صاف شفاق جوابوں کی تلاش ہے۔ جبکہ صورت انتہائی مبہم ہے۔
آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایک شہر جو اپنے روٹین کے بہائو میں بہہ رہا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے، گھروں سے باہر لوگ کسی بھی قسم کے خوف یا بدامنی کا شکار نہیں ہیں۔ زندگی امن اور سکون کے ساتھ اپنا سفر کر رہی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہر بند ہونے لگے۔ اس کے داخلی اور خارجی راستوں پر بپھرے ہوئے پہریدار بیٹھ جائیں۔ سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک کا بہائو رکنے لگے۔ گاڑیاں موٹر سائیکل رکشے، سڑک، بسیں اور ان مسافر گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے چہرے سوال بن جائیں کہ آخر کس کے حکم پر زندگی کا یہ بہائو روکا گیا۔ ٹریفک میں پھنسی ہوئی ایمبولینسوں میں کراہتے ہوئے مریض جو ہسپتال پہنچنے کی جلدی میں تھے۔ وہ سڑک کے عین بیچوں بیچ اپنی گاڑیوں ایمبولینسوں میں کراہتے ہوئے، بپھرے ہوئے ہجوم کے رحم و کرم پر ہوں۔
یہ صورت حال پھر پاکستان کے طول و عرض میں پھیل جائے ہر شہر اس کی لپیٹ میں آ جائے، چوبیس گھنٹے چھوٹی چھوٹی خبروں پر طوفان کھڑا کرنے والے ٹی وی چینل اس صورت حال پر خاموش رہیں۔ تجزیہ نگاروں کی زبانیں کنگ ہو جائیں اور بات کا سرا ہاتھ نہ آئے کہ آخر کیوں یہ سب تماشا شروع ہوا۔ کم از کم پہلے روز تو خبروں کے محاذ پر ایسی ہی پراسرار خاموشی تھی۔ پھر لوگ سوشل میڈیا کریدنے لگے تو معلوم ہوا کہ تحریک لبیک کے رہنما سعد رضوی کو حکومت نے گرفتار کر لیا ہے اور یہ سارا طوفان اسی کا ردعمل ہے۔ اس حکومت کو اچانک کیا سوجھی کہ رمضان المبارک سے ایک روز پیشتر پٹرول کو ماچس دکھائیں، ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور بعض ردعمل بہت خوفناک بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں اندھا دھند ایکشن سے ری ایکشن ہی وجود میں آئے گا۔ ایسی صورتحال میں معاملات کو دانش سے حکمت عملی سے اور معاملہ فہمی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت تو اس صورتحال میں ناکام ہوتی دکھائی دی۔ اب تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ ہی حکمت سے عاری ہے، کھل کر مکالمہ کرنا چاہیے۔ ختم نبوت اور تحفظ نبوت کے حوالے سے جو تحفظات ہیں اس پر بات کریں۔ حکومت کی ناکامی سے بڑھ کر جو بات افسوسناک ہے جس پر ماتم کرنے کو جی چاہے وہ یہ ہے کہ خاتم النبین رحمت اللعالمین کے نام لیواوں نے جس طرح عام آدمی کو عذاب سے دوچار کئے رکھا کیا نبی پاکؐ پر درود بھیجنے والا کوئی باعمل مسلمان اس کا تصور بھی کر سکتا ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہو سکتا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں۔"
اس حدیث قدسی کے آئینے میں دیکھیں تو نبی پاکؐ کے نام پر یہ ہنگامہ کرنے والوں کو اپنے چہرے بدصورت دکھائی دیں گے۔ ہائے ہائے رحمت للعالمین کے نام لیوا اور خلق خدا کے لئے زندگی عذاب اور آزار بنانے۔ کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔ عورتوں بچوں بزرگوں اور بیماروں کی جان مال اور عزت نفس کو خطرے سے دوچار کرتے یہ بپھرے ہوئے جتھے کچھ بھی ہو سکتے ہیں مگر عاشق رسول نہیں ہو سکتے۔ اس درد کو افتخار عارف نے الفاظ دے دیے ہیں:
رحمت سید لو لاک پہ کامل ایمان
امت سید لولاک سے خوف آتا ہے