کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس نے ایک بار پھر ہمیں اس واہمے سے باہر نکال دیا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور ہمارے وزیر اعظم جو اقوام متحدہ کے فورم پر مسلمانوں کے حق میں ایک عدد دبنگ تقریر کے بعد ہمیں اس خوش فہمی سے دوچار کر چکے تھے کہ اب ان کی صورت مسلم دنیا کو ایک تگڑا اور دبنگ لیڈر میسر آ گیا ہے۔ یہ خوشخبری ہمیں ہمارے وزیر اعظم نے بھی سنائی تھی کہ جلد ہی پاکستان، ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر ایک ایسا ٹی وی چینل بنانے جا رہا ہے جو دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے تاثر کو زائل کرے گا اور اسلام کا اصل پرامن چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا۔ اپنے وزیر اعظم سے اتنی بلند توقعات وابستہ کرتے ہوئے ہم بھول گئے تھے کہ جو قوتیں ہمارا کشکول بھرتی ہیں ہم ان کی مرضی کے خلاف کیسے اس کیمپ میں جا سکتے ہیں جس کیمپ سے ان کو شدید ترین تحفظات ہوں، وہی بات کہ Beggars are not choosersاس کے ساتھ ہمیں وہ انگریزی کہاوت بھی یاد آتی ہے جس میں کیسی دانائی کی بات چھپی ہوتی ہے کہ There is no free lunch
اس لئے کہ کسی نہ کسی طریقے سے آپ کو اس فری لنچ کی قیمت ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ کبھی کبھی تو اپنی آزادی کو گروی رکھ کر وہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور یہ سودا بہت مہنگا ہے۔ لیکن ایسا سوچنے کی آزادی بھی ان کے نصیب میں ہوتی ہے جن کے پاس آپشن ہوں۔ جن کے پاس اپنے فیصلوں پر ڈٹ جانے اور نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ ہو۔
ورنہ پھر وہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہوا۔ ہم ان کی نظر کرم کے محتاج ہمیشہ سے رہے ہیں اور وہ بھی ہماری لڑکھڑاتی، تقریباً ڈھے چکی معیشت کو بھاری مالی امداد دے کر اس میں جان ڈالتے رہے ہیں۔ ابھی کی تازہ ترین 20 ملین ڈالر کی بے مثال امداد تو شہزادے نے خود ہمارے غریب خانے پر آ کر ہمیں دی اور ساتھ ہی ایک پریس کانفرنس میں اس عظیم نظر کرم کا جواز بھی ہمیں بتلایا کہ Pakistan is gonna be very important for us in near futur.
یعنی ہمیں ہوشیار کر دیا کہ 20 ملین ڈالر کسی بھی صورت فری لنچ نہیں ہے۔ اس کی قیمت آپ کو ادا کرنا ہو گی اور یہ جو انتہائی مضحکہ خیز صورت حال میں ہمارے وزیر اعظم نے کوالالمپور کانفرنس میں پہلے شرکت کا اعلان کیا اور پھر اس شرکت سے معذرت کا یوٹرن لیا یہ اس فری لنچ کی قیمت کی پہلی قسط ہے۔
آزادانہ خارجہ پالیسی کا تصور زمین بوس ہو گیا اور ویسے بھی، ہر وقت امداد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں کی کون سی خارجہ پالیسی اور کیسی آزادی۔؟ہمارے وزیر اعظم کے اس یوٹرن کا تذکرہ عالمی اخبارات میں چھپنے والے مضامین میں بھی ہوتا رہا۔ تجزیہ کاروں نے اسے ایک خجالت بھرا یوٹرن قرار دیا۔
ہائے ہائے پاکستان کی بے بسی ملاحظہ ہو۔ ایک طرف ہمارے وزیر اعظم کے لانگ ٹائم رول ماڈل مہاتیر محمد کا بلاوا ہے۔ ترکی کے صدر اردوان کا دعوت نامہ ہے اور مقصد دیکھیے اس کانفرنس کا کیسا عظیم اور خوش کن تھا کہ بالآخر مسلم دنیا سے بھی کوئی جرأت مند رہنمائوں کی آوازیں اٹھیں کہ چلو آئو مل کر بیٹھیں اور اپنی کوتاہیوں کا تجزیہ کریں۔ آئو اپنے آپ کو سیدھا کریں اور دیکھیں کہ کیوں قدم قدم پر ذلت مسلمانوں کا مقدر ہے۔ آئو ایک بیٹھک کرتے ہیں اور ان سارے مسئلوں کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں جو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ آئو، خود کو اتنا مضبوط کرنے کی سعی کرتے ہیں کہ عالمی طاقت کے ٹھیکیدار ہمارا استحصال نہ کر سکیں۔ کیسی بے مثال اور نایاب بیٹھک تھی جس میں ہمارے وزیر اعظم کو شرکت سے انکار کرنا پڑا۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے کس مشکل سے یہ انکار کیا ہو گا اور یہ تلخ حقیقت کھل کر سمجھ میں آئی ہو گی کہ ہاتھ پھیلانے والوں کے ہاتھ میں فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ وہ جو ہم پر نظر کرم فرماتے یہ ان کو گوارا نہیں تھا کہ ہم ترکی ملائشیا قطر اور ایران کی بیٹھک میں بیٹھیں۔ انہوں نے اربوں ڈالر ہم پر اس لئے وارے تھے کہ ہم ان کے پلڑے میں وزن ڈالیں اور جن سے ان کو تحفظات ہیں ان سے دور ہیں۔ یہ جو مسلم امہ کا تصورہمارے دماغوں میں گھسا بیٹھا ہے اس کو نکال باہر پھینکیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پرہونے والے ظلم و ستم پر خاموش رہیں۔ میانمر کے بے کس مسلمان ہو ںیا یمن کے قحط سے مرتے ہوئے بچے، ان پر ہونے والے ظلم پر آواز نہ اٹھائیں۔ اپنے کشکول پر نظر رکھیں اور جو کرما فرما اس کشکول کو بھرتے ہیں ان کی تابعداری کرتے رہیں، انہیں مقدس جانیں اور ان کی عظمت کے گن گائیں۔
ہاں ایک اور بات سمجھنے کی بھی ہے کہ اگر ہمارا دشمن ہماری شہ رگ کو اپنے ظلم کے بھاری نوٹوں تلے کچل دے۔ ہماری شہ رگ کے بنیادی حقوق کے جسم میں خنجر اتار دے اور ہم رونے پیٹنے، ظلم کی یہ فریاد لے کر اس کے عالیشان دربار میں جائیں تو بھی ہرگز یہ امید نہ رکھیں کہ وہ اس ظلم پر ہمارے دشمن کی تنبیہ کرے گا۔ یہ تو اس کا حسن کرشمہ ساز ہے وہ جو بھی کرے۔ چاہے تو آندھی کو صبا کہہ دے اور کھلے ظلم کو ہمارے دشمن کا اندرونی معاملہ کہہ کر ہمیں حیران کر دے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری شہ رگ کو کچلنے والا ہمارا دشمن، ہمارے کرمفرمائوں کا جگری یار ہے۔ دونوں مفادات کے حسین بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور مفادات کی سرخوشی میں مظلوموں کی چیخیں سنائی نہیں دیا کرتیں۔
سو میرے عزیز ہم وطنو! صبح شام خود کو یاد دہانی کرائو کہ مسلم امہ محض ایک واہمہ ہے۔ ہم اپنے کرمفرمائوں کے تابعدار ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی ہمارے کرمفرمائوں کے عقد میں آنے کے بعد غیر ہو چکی ہے۔ ہمارا کشکول اربوں ڈالر کی خطیر امداد سے بھرا ہوا ہے اور ہم نے اپنے تمام تر انقلابی خیالات کو مصلحت کے صندوق میں تالہ لگا کر رکھ دیا ہے اب ہمیں عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا ہے!