صحافت۔ میں آغاز کا زمانہ تھا میں اس وقت ایک بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ تھی اور وہاں بچوں کے صفحے کے انچارج تھی، انہی دنوں میں میں نے پہلی بار یاسین وٹو صاحب کو دیکھا ، وہ جہاں بیٹھتے لوگ ان کے پاس آ جاتے پتہ چلا کہ وہ زائچہ بناتے ہیں اور علم الاعداد کے بھی ماہر ہیں، کچھ روحانیت سے بھی دلچسپی ہے، سچی بات یہ ہے کہ میں ایسے لوگوں سے تھوڑا فاصلے پر رہتی ہوں اور اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی کوئی مجھے مستقبل کا حال بتائے۔ ایک روز وہ ہمارے کمرے میں بھی اسی طرح گھومتے گھماتے آگئے، فاخرہ تحریم وکیل انجم اور اعجاز بٹ میرے کولیگ تھے اور ہم اسی کمرے میں بیٹھا کرتے سب کو کچھ نہ بتایا پھر مجھ سے بھی سوال کرنے لگے اور کہا کہ آپ کا نام ابھی بہت چھپے گا آپ کی تحریر کی پذیرائی ہوگی، میں نے قدرے سنجیدگی سے کہا کہ یہ آپ نے کوئی پیشنگوئی تو نہیں کی میں تو پہلے ہی ہر ہفتے چھپ رہی ہوں۔ وٹو صاحب اپنے مخصوص انداز میں بولے یہ کہاں آپ چھپتی ہیں، آپ کو پتہ ہی نہیں کہ آپ نے کس جگہ پر لکھنا ہے، میں نے جواب دیا میں سنڈے میگزین میں بھی لکھتی ہوں تو بولے، نہیں جو میں دیکھ رہا ہوں وہ اور جگہ ہے، یہ مری ان سے پہلی ملاقات اور بات چیت تھی۔
میں پہلے ہی ایڈیشن انچارج تھی سنڈے میگزین میں فیچر بھی لکھتی تھی سو مجھے اس بات کی کوئی سمجھ نہ آئی کہ اب میں نے اور کہاں لکھنا ہے۔ اس بات کے چند ہفتوں کے بعد مجھے اخبار کے ایک کثیرالاشاعت میگزین اخبار جہاں کے لیے کچھ اسائنمنٹ کرنے کا کہا گیا۔ اب میں نے وہاں کام کرنا شروع کر دیا۔ لیکن وٹو صاحب کی بات مجھے اس وقت سمجھ آئی جب 2007 میں سب ایڈیٹر ہوتے ہوئے میر ا کالم صحافت کے بڑے بڑے ستاروں کے درمیان چھپنے لگا۔ پھر ایک روز ان سے ملاقات ہوئی تو میرے کالم پر مجھ سے بھی زیادہ خوشی کا اظہار کیا، بہت دعائیں دیں اور کہا آپ کو یاد ہے میں نے کیا کہا تھا۔ وہ پیشن گوئی تھی یا پھر کوئی الہام intuition میرے لیے حیرت کاسبب تھی۔
دفتر میں میری ایک دوست تھیں جو جو سرکولیشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی، انہوں نے مجھے کہا کہ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں، کسی دن وٹو صاحب کو میرے کمرے میں لے کر آؤ، بشریٰ کا کمرہ اپر فلور پر تھا میں انہیں لے کر گئی تو بیٹھنے سے پہلے ہی اسے دیکھ کر کہنے لگے کہ سب سے پہلے تو آپ یہ فیروزہ اتار دیں جو آپ نے پہنا ہوا ہے، یہ آپ کو نقصان پہنچائے گا دوسری بات انہوں نے اور بھی حیران کن کی انہوں نے کہا کہ آپ کا کمرہ کدھر ہے؟
بشریٰ مسکراتے ہوئے بولی کہ یہ میرا ہی کمرہ ہے جہاں آپ بیٹھے ہیں وٹوصاحب اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے کہ یہ آپ کا کمرہ نہیں ہے۔ میں آپ کو یہاں بیٹھا ہوا نہیں دیکھ رہا، یہ باتیں ہوئی اور چائے پی اور واپس آ گئے۔ حیرت انگیز طور پر میری دوست نے اس واقعے کے تیسرے دن اپنی بوجوہ ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت وہ TEVTA میں گریڈ انیس میں کا م کررہی ہیں۔ 27ستمبر 2005 کو وٹو صاحب نے اس سے یہ کہا تھا کہ میں آپ کو یہاں نہیں دیکھ رہا اور اس کے تیسرے دن 30 ستمبر2005 کو اس ملازمت نے استعفی دے دیا تھا، وہ خود آج تک اس بات پر حیرت زدہ ہے کہ کیا وٹو صاحب کی یہ intuition تھی جو انہوں نے ایسا کہا؟
وٹو صاحب کوئی روایتی پامسٹ نہیں تھے، ان کے اندر روحانیت کا کوئی میکانزم موجود تھا کوئی کشف ان کو ضرور ہوتا ہے کہ وہ بغیر بتائے کچھ باتیں جان لیتے تھے۔ ان کی چھوٹی بیٹی کی شادی ہمارے ؎خانپور کے فیملی فرینڈ خاندان کے ہاں ہوئی جس سے ان کے ساتھ تعلق فیملی کی سطح پر استوار ہوگیا۔ میرے تینوں بھائیوں کے ساتھ بھی ان کا ایک محبت اور احترام کا رشتہ بن گیا۔ مجھے ہمیشہ ان سے یہ شرمندگی رہتی کہ رابطہ نہیں رکھ پاتی تھی لیکن وہ ہمیشہ میرے ساتھ رابطہ رکھتے تھے کبھی کالم کی تعریف کرتے، اور پرخلوص دعاوں سے نوازتے، بعض اوقات بہت عجیب واقعات ہوئے کہ میں کچھ پریشان ہوں تو وٹو صاحب کا فون ضرور آ جاتا اور مجھے کہتے کہ آپ پریشان کیو ں ہیں کچھ نہ کچھ پڑھنے کے لئے بتا دیتے۔
کچھ عرصہ پہلے میرابیٹا بیمار ہو گیا جو بھی کھاتا تھا قے کر دیتا، دوائیں بھی بدل کے دیکھ لیں بہت پریشانی میں جب کچھ نہ سوجھا وٹو صاحب کو فون کیا کہ آپ دم کردیں، انہوں نے سنتے ہی کہا ابھی آجائیں صبح گیارہ کا وقت تھا اور وہ تیارہوکر گھر سے آفس کے لیے نکلنے والے تھے کہ ہم پہنچ گئے۔ وٹو صاحب نے میرے بیٹے پرایک سو ستر بار آیت الکرسی پڑھ کر دم کیااور دعا کی حیرت انگیز طور دانیال کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہوگئی۔ وہ بہت زمانوں سے تہجد گزار، شب کو ذکر اذکار میں مشغول رہنے والے اللہ کے نیک بندے تھے۔ میرے ساتھ ان کا خلوص اوردعاکاتعلق بہت گہرا تھا بغیر کسی ستائش کی تمنا کے وہ اپنے طور بڑے خلوص تعلق نبھانے والے تھے۔ ایک باران کے گھر گئے تو ان کے لیے ایک سوٹ اور جوسز کے ڈبے لے گئے، یہ سب دیکھ کر وٹو صاحب اس قدر ناراض ہوئے اور کہنے لگے یہ سب کچھ یہاں سے اٹھائیں اور واپس لے جائیں۔ ان کے ردعمل سے ہمیں ایسے لگا کہ جیسے ہم سے کوئی بڑی غلطی سر زد ہوگئی ہے، ان کا دیانت بھرا خلوص ایسا ہی تھا۔
جو آج کے مفاد پرست دور جنس نایاب ہے نو جنوری وٹو صاحب مرحوم کے گھر تعزیت کے لیے گئے تو ان کی بیٹی نے بتایا بیماری کے دوران ایک روز انہوں نے نیم بے ہوشی کی حالت میں کہا کہ وہ میری جان لے کر جاچکے ہیں، پھر اسپتال سے گھر آگئے تو ایک روز پہلے کہا کہ وقت پورا ہو گیا ہے اور وہ جانے والے ہیں۔ اگلی ہی صبح فجر کی اذان کے وقت وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ کریم انکی روح کو ابدی سکون اور رحمتوں سے ہم کنار کرے۔ آمین