گاڑی سرخ اشارے پر رکی تھی، ساتھ ہی ایک سائیکل آ کر رکی، چار پانچ سال کا بچہ سائیکل پر بٹھایا ہوا۔ بچے کے پائوں میں نئے نکور سردیوں کے بوٹ تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ابھی ابھی کسی دکان سے خرید کر باپ نے بچے کو پہنائے ہیں۔ جبکہ باپ کے تھکن زدہ کھردرے پائوں میں بدرنگ، پرانی، مرمت شدہ جوتی تھی۔ نومبر کی شام میں کافی خنکی تھی، مگر باپ نے کھلی چپل پہنی ہوئی تھی۔ ہاں بچے کو موسم کے مطابق نئے بند جوتے پہنا رکھے تھے۔ یہ منظر صرف ایک استعارہ تھا۔ محبت کرنے والے بچوں پر اپنی جاں چھڑکنے والے وفادار باپ کا پورا نظریہ حیات بتا رہا تھا۔ باپ اپنی ضرورتوں کی بھی قربانی دے کر اپنے بچے کی خواہش پوری کرتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی اسی ایثار اور قربانی کے جذبے سے سرشار گزرتی ہے۔ ماں قربانی و ایثار کا پیکر ہے تو باپ کی قربانی بھی کسی طور بچوں کے لئے کم نہیں ہوتی۔ شاعر کا نام معلوم نہیں لیکن جب یہ شعر پڑھا تو بس دل کو لگ گیا۔ کیا اچھا شعر ہے:
گھر کی اس بار مکمل میں تلاشی لوں گا
غم چھپا کر مرے ماں باپ کہاں رکھتے ہیں!!
اور حقیقت تو ہے کہ مائیں پھر بھی بچوں کے سامنے اظہار کرتی ہیں، اپنی پریشانیوں کا۔ خدشوں اور وسوسوں کا، اسی طرح بچوں سے اپنے پیار کا اظہار بھی مائیں بآسانی کر لیتی ہیں جبکہ والد کو تو یہ لگژری بھی میسر نہیں ہوتی۔ معاشرے نے تو اسے مضبوط اور باوقار رہنے کی ذمہ داری سونپ کر اسے ایک مشکل میں ڈال دیا ہے، وہ اپنے خدشوں، وسوسوں، پریشانیوں حتیٰ کہ محبتوں کو بھی چھپا کر رکھتا ہے۔ بیشتر باپ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بالکل برفانی جھیل پر جمے ہوئے آئس برگ کی طرح اوپر سے سخت یخ بستہ، سخت نظر آنے والے اور آئس برگ کے نیچے جھیل کے گرم پانی جیسے۔ احساسات اور جذبات سے بھرے ہوئے۔ کچھ عرصہ ہوا، طاہر شہیر کی لکھی ہوئی والد کے حوالے سے ایک نظم بہت مقبول ہوئی۔ کلام شاعر بہ زبان شاعر کا ایک ویڈیو کلپ تھا اور سننے والے اسے سنتے ہوئے، آنکھوں سے اپنے آنسو صاف کرتے جاتے تھے:
عزیز تر مجھے رکھتا تھا وہ برگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہی وجہ ہے وہ مجھے چومتے جھجکتا ہے
پہلے والد اپنے احساسات، اپنے بچوں سے چھپا کر رکھتا ہے اسی طرح بچے ہی اپنے دلی جذبات کا اظہار مائوں سے کرتے ہیں، سہولت محسوس کرتے ہیں، شاعری میں بھی ماں کے حوالے سے زیادہ اظہار ہوا ہے۔ بیٹیوں کا اپنے والد سے ایک الگ اور انوکھا رشتہ ہوتا ہے۔ والد اپنی پریشانیوں، خدشات اور وسوسوں کو جتنا بھی چھپا کر رکھیں، حساس طبیعت بیٹیوں پر یہ سارے رنگ آشکار ہو جاتے ہیں۔
افتخار عارف کا کہنا ہے: بیٹی سے ان کی انسیت ایسی ہے کہ برطانیہ میں رہنے کے باوجود ان کی بیٹی فون پر پل پل ان کی خبر گیری کرتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کیا کھایا، کیا پہنا، کہاں گئے، یہ سب ان کی بیٹی گیتی کو پتہ ہوتا ہے۔ میں اپنی زندگی میں اتنا سفر طے کرنے کے بعد پیچھے دیکھوں تو مجھے لگتا ہے کہ جو اعتماد میرے والد صاحب نے مجھے گھر سے دیا تھا، وہ ایک ایسا زاد سفر تھا، جس نے زندگی کی مشکلات اور اونچ نیچ میں بھی مجھے سہارا دیے رکھا۔ ایف ایس سی میں جب بوجوہ میڈیکل کالج کے میرٹ پر نمبر نہیں آئے تو اس وقت ایسا ذہنی دھچکا لگا تھا۔ ابھی زندگی کی خبر نہیں تھی، بس اسی ایک خواب کے گرد سوچ کا تانا بانا بنا ہوا تھا چونکہ یہ بہاولپور بورڈ کے ایک کلریکل فالٹ کی وجہ سے ہوا تھا کہ اصل پرچہ چیک نہیں کیا گیا تھا، اس کو لے کر میرے والد صاحب نے بورڈ کے خلاف بہاولپور عدالت میں کیس کیا اور کیس کی سماعت کے لئے خان پور سے بہاولپور جاتے رہے۔ ملازمت کی تمام تر ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ کیس کی سماعت پر بہاولپور جانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ دوسری طرف مجھے اس صورتحال سے نکالنے کے لئے ایسے ایسے واقعات سناتے کہ کس طرح ناکامی سے دوچارہونے والے لوگوں نے ہمت نہیں ہاری، مستقل مزاجی سے محنت کی اور دنیا میں اپنا نام بنایا۔ بالکل ایک شاندار موٹیویشنل سپیکر کی طرح، وہ مجھے نئے خواب اور نئی امید دیتے رہے۔
کہتے ہیں کہ جو کچھ آپ اپنے بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے وہی بن کر دکھائیں۔ آپ اپنے طرز عمل سے بچوں کی سوچ پر اثر ڈالیں۔ الحمد اللہ ہم نے اپنے والدین کو ایسا ہی دیکھا، والد صاحب میں ہم نے بلا کا حوصلہ، صبر، قناعت، ایثار، قربانی، احترام، انسانیت، دیانت اور شرافت دیکھی۔ میں بہاولپور ہوسٹل میں تھی، ہوسٹل کے کمروں میں انتہائی گرمی تھی۔ فون پر ابو جان سے برسبیل تذکرہ اس گرمی کا ذکر ہوا، تیسرے دن اتوار تھا دیکھا کہ وہ میرے لئے ہوسٹل میں ایئر کولر لے کر آئے ہیں۔ ہوسٹل میں میری ایک دوست نے یہ منظر دیکھا تو اس شام میرے سامنے رو پڑی، کہنے لگی کہ پہلی بار دیکھا ہے کہ والد ایسے بھی ہوتے ہیں؟ ۔ اس ایک سوال میں ایک بیٹی کی اپنے باپ کے ساتھ ٹوٹے ہوئے رشتے کی کسک موجود تھی۔ ابو جان ایک آئیڈیل والد ہیں۔ تو ہم نے امی جان کے لئے انہیں ایک آئیڈیل شوہر کے روپ میں بھی دیکھا، اعلیٰ ظرف، خیال رکھنے والے، بوجھ نہ ڈالنے والے اور امی جان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے بھتیجوں کا آج بھی ہر ممکن خیال رکھنے والے۔ میرے ننھیالی خاندان میں سب کی پسندیدہ شخصیت۔ اللہ کریم میرے پیارے ابو جان کا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔ آمین ثم آمین۔ چند سال پہلے یہ نظم میں نے اپنے والد کے لئے لکھی تھی۔ اس کے کچھ بند پیش خدمت ہیں:
زندگی کے بام پر تیرا وجود
یوں ہے جیسے ایک سورج عکس گیر
مجھ کو اپنی ہجر پرور روشنی کی گود میں لیتا ہوا
ایک آسودہ تپش کے حوصلے دیتا ہوا
زندگی کے سلسلے کا بھی عجب آغاز تھا
کم سنی کی خاک میں سویا ہوا ننھا سا بیج
تیری کرنوں کی تمازت سے نمو پاتا رہا
تیری آسودہ تپش نے مری شاخ خام پر پھر رکھ دیے