افسوس کہ ہمارے غیرسنجیدہ حکمرانوں نے مذاق بنا لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اکہتر سال میں پہلی مرتبہ نہایت نازک موڑ پر آگیا ہے اور مزیدگمبھیرہونے جارہا ہے اور توجہ اور سنجیدگی کا تقاضا کررہا ہے۔ اکہتر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ اس خطے سے متعلق اپنے ایجنڈے کے ساتھ کھل کر میدان میں آگیا ہے جس میں قضیہ کشمیر کے اونٹ کو کسی ایک کروٹ بٹھانا سرفہرست ہے۔ یقین نہ آئے تو چند واقعات پر سنجیدگی سے غور کرلیجئے۔
(۱): پاکستان کے لئے کشمیر زندگی اور موت کا مسئلہ ہے تو اسے گھیرنے کے لئے ہندوستان نے افغانستان کو اپنے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا۔ ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی میں پاکستان کو کلیدی کردار دے کر ہندوستان کو یکسر باہر کردیا۔ اس پر تو ہندوستان کو آسمان سر پر اٹھانا چاہئے تھا لیکن اس نے کوئی خاص احتجاج نہیں کیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ نے ہندوستان کو یقین دلایا ہو کہ وہ مغربی سرحد پر افغانستان سے دستبردار ہوجائے تو مشرقی سرحد پر اس کی مرضی کا حل نکال دیا جائے گا۔
(۲):ایسا ہر گز نہیں کہ عمران خان صاحب نے ملاقات کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو کشمیر یاد دلایا یا انہیں ثالثی پر آمادہ کیا۔ میں اس روز واشنگٹن میں تھا اور وہاں پر موجود کسی بھی رپورٹر سے تصدیق کی جاسکتی ہے کہ دونوں رہنمائوں کی پریس بریفنگ ملاقات کے آغاز میں ہوئی تھی نہ کہ ملاقات کے بعد۔ اگر یہ پریس بریفنگ ملاقات کے اختتام پر ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ خان صاحب نے ان کو کشمیر یاد دلایا اور انہیں ثالثی پر آمادہ کیا لیکن جو کچھ فرمایا وہ پہلے سے ٹرمپ صاحب کے ذہن میں تھا۔
(۳):پاکستان اور امریکہ کے معاملات طے کرانے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا کلیدی کردار ہے۔ ان دونوں ممالک کی طرف سے ابھی تک پاکستان یا کشمیریوں کی حمایت میں ایک لفظ بھی سامنے نہیں آیا بلکہ یواےای شاید واحد ملک ہے جس کے سفیر نے ہندوستان کے حق میں بیان دیا۔ دوسری طرف ایران جو ابھی تک افغانستان کے حوالے سے انڈیا کا اسٹرٹیجک پارٹنر تھا، کی قیادت نے پاکستان کے حق میں بیان دیا۔ یہ سب کچھ کیا پتہ نہیں دے رہے ہیں کہ درون خانہ کشمیر کے معاملے پر امریکہ کے زیرقیادت کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ یواے ای اور سعودی عرب کی پراسرار خاموشی اور ایران کا میدان میں آنا کیا اس بات کا پتہ نہیں دے رہا کہ امریکہ کی زیرقیادت اس خطے میں کسی ایسے اسکرپٹ پر عمل ہورہا ہے جس میں سعودی عرب اور یواے ای کا بھی خاموش کردار ہے۔
(۴):عمران خان صاحب آج تک کوئی اطمینان بخش تاویل پیش نہ کرسکے کہ انہوں نے اس خوش فہمی کا اظہار کیوں کیا تھا کہ نریندرمودی کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار ہوگی جبکہ ابھی تک حکومت کی طرف سے اس بات کی بھی خاطر خواہ وضاحت سامنے نہ آئی کہ بظاہر تو عمران خان کا دورہ امریکہ افغانستان سے متعلق تھا تو وہاں جانے سے پہلے حافظ سعید کو کیوں گرفتار کیا گیا اور اس گرفتاری کی ڈونلڈ ٹرمپ نے خصوصی ٹویٹ جاری کرکے تحسین کیوں کی؟
(۵) ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی بات کی تو ہمارے حکمران اور ان کے ترجمان بھنگڑے ڈالنے لگےحالانکہ ہمیں گزشتہ چھ سال سے تسلسل کے ساتھ یہ پٹی پڑھائی جاتی رہی کہ امریکہ ہندوستان کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن گیا ہے اور وہ ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازش کررہا ہے۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ ہندوستان اور اسرائیل پاکستان دشمنی میں ایک صفحے پر ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ امریکہ بالعموم اور ڈونلڈ ٹرمپ بالخصوص اسرائیل کے سرپرست ہیں۔ اب اس ڈونلڈ ٹرمپ سے صرف پاکستان کے حق میں مداخلت کی توقع کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن بہر حال جو غلط فہمی تھی وہ فرانس میں مودی اور ٹرمپ ملاقات کے بعد دور ہوجانی چاہئے۔ اس ملاقات کے بعد واضح ہوگیا کہ عمران خان اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے شناسا بن گئے ہیں تو مودی ان کے بڈی ہیں۔ اس ملاقات کے بعد دونوں کے رویے سے واضح ہوگیا کہ مودی جو کچھ کررہا ہے اس میں امریکہ کی شہہ تو ہوسکتی ہے لیکن ان کے دل میں امریکہ کا کوئی خوف ہے اور نہ کبھی امریکہ پاکستان یا کشمیر کی خاطر ان کے راستے میں رکاوٹ بنے گا۔ میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مذکورہ بالا حقائق کے تناظر میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ کشمیر کے حوالے سے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کشمیر کے حوالے سے امریکہ سے توقع لگانا حماقت ہے تو اقوام متحدہ پر تکیہ کرنا اس سے بڑی حماقت ہے اور امت مسلمہ یا عرب ممالک پر انحصار کرنا ام الحماقت ہے لیکن اس موقع پر سعودی عرب، یو اے ای یا امریکہ وغیرہ کو برابھلا کہہ کر اپنے دشمنوں میں اضافہ کرنا بھی بڑی حماقت ہے۔ ان میں سے کسی نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی ہمیں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم آپ کے لئے کشمیر آزاد کرائیں گے یا آپ کی خاطر انڈیا کے ساتھ تعلقات خراب یا ختم کریں گے۔ حماقتوں کا ارتکاب ہم نے خود کیا۔ ہم بے وقوف تھے جو اسلام کا نام استعمال کرکے چند ریالوں کی خاطر عربوں اور ایرانیوں کی جنگ کو اپنے ملک میں لاتے رہے۔ افسوس کہ ہمارے بعض مذہبی رہنما اب بھی باز نہیں آئے اور آج بھی پاکستان سے زیادہ سعودی عرب یا ایران کے وفادار نظر آتے ہیں۔ بہر حال اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ کشمیریوں کی قربانیوں اور مودی کی جارحانہ حماقتوں کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ توجہ کا مرکز بن گیا ہے لیکن ہمیں روایتی طریقوں سے ہٹ کر روایتی عوامل پر تکیہ کرنے کی بجائے کچھ اور سوچنا اور کرنا ہوگا۔