فریقین ایک دوسرے کے خلاف ہر حد سے گزر چکے تھے۔ مفاہمت اور مصالحت کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی تھیں اور کسی بھی فریق کی طرف سے رتی بھر لچک کا مظاہرہ محال ہو گیا تھا۔ چنانچہ فریق اول (شریف برادران) اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے دیگر عناصر اور پوری قوم کو اِس کی قیمت چکانا پڑی۔ اقتدار سے نکل کر جیلوں میں جانا بھی بڑی قیمت تھی لیکن انسانی اور جذباتی حوالوں سے دیکھا جائے تو محترمہ کلثوم نواز کی ایسی صورت میں رحلت کہ شوہر ساتھ تھے اور نہ بیٹی، یقیناً بہت بڑی قیمت تھی۔ انتخابات سے قبل میاں نواز شریف صاحب، مریم نواز اور ان کو اس راستے پر لگانے والے ان کے مشیر یہ تاثر دے رہے تھے کہ اب کی بار وہ کشتیاں جلا چکے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جو جمہور کی بالادستی پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اس کے لئے حسبِ استطاعت کوشش کرنے میں بھی لگے رہتے ہیں، بھی اگر چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف کے بیانیے کے حق میں تھے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ہمارے سامنے شریف خاندان کا ماضی تھا۔ ہم جانتے تھے کہ یہ لوگ بہادر تو ہیں لیکن لمبے عرصے کے لئے سختی برداشت نہیں کر سکتے۔ اب کی بار تو ہمیں خاندان اور پارٹی کے اندر دو آرا کی تقسیم بھی واضح نظر آ رہی تھی۔ ہم جانتے تھے کہ میاں صاحب کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ بہرحال بعد از خرابی بسیار انتخابات کے بعد اگر کھلے طور پر نہیں تو جزوی طور پر ضرور، تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگی۔ مسلم لیگ (ن) کی سیاست میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے بیانیے کے مطابق استوار ہونے لگی۔ "ووٹ کو عزت دو، کا نعرہ ترک کر دیا گیا۔ خواجہ آصف اور احسن اقبال وہی رول ادا کرنے لگے جو کسی زمانے میں چوہدری نثار علی خان ادا کیا کرتے تھے چنانچہ اعتماد سازی کے لئے اقدامات (Confidence building measures) کا آغاز ہونے لگا۔ میاں شہباز شریف کے مشورے پر میاں نواز شریف اور مریم نواز نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔ ہمہ وقت متحرک ٹویٹر اکائونٹ بھی خاموش ہو گیا۔ پرویز رشید اور مشاہداللہ جیسے انقلابی پسِ منظر میں چلے گئے اور احسن اقبال یا خواجہ محمد آصف جیسے تبدیل ہونے والے لوگ آگے آئے۔ درونِ خانہ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں دو رائے تو ہو سکتی ہیں لیکن اندھے اور بہرے بھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا انقلابی موقف کمزور پڑ گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کو ڈھیل مل گئی ہے اور ڈیل کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ ڈیل عمران خان سے مانگی جا رہی ہے اور نہ ڈھیل ان کی طرف سے دی گئی ہے بلکہ اس ڈھیل پر سب سے زیادہ برہم کوئی ہیں تو وہ بھی نیازی صاحب ہیں اور ڈیل کے امکانات سے سب سے زیادہ پریشان اگر کوئی ہیں تو وہ بھی وہی ہیں۔ میاں شہباز شریف کو پروڈکشن آرڈر کے ذریعے پارلیمنٹ میں پیش کرنا، ان کو پی اے سی کا چیئرمین بنایا جانا، میاں نواز شریف کو ان کی خواہش کے مطابق لاہور کی جیل میں منتقل کیا جانا، سلمان شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو بیرونِ ملک جانے کا موقع فراہم کرنا یہ سب اس ڈھیل کے مظاہر ہیں جو سب کے سب وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی مرضی کے بغیر ہوئے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ڈیل ابھی ہوئی نہیں بلکہ اس کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہنوز باقی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ڈیل مانگنے والوں کی کیا مجبوری ہے اور ڈھیل دے کر ڈیل پر غور کرنے والوں کو کس چیز نے ایسا کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ جہاں تک ڈیل مانگنے والوں کا تعلق ہے تو ان کو احساس ہو گیا ہے کہ سابقہ موقف پر اصرار کر کے ان کے حصے میں مزید اور شاید ناقابلِ برداشت آزمائشیں آئیں گی۔ میاں نواز شریف اپنی حد تک تو ہر آزمائش کا سامنے کرنے کو تیار نظر آتے ہیں لیکن باپ ہونے کے ناتے وہ بچوں کی آزمائش کو ایک خاص حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتے۔ بیٹی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود تو سختی برداشت کر لیں گی لیکن ماں کی رحلت کے بعد اب باپ کی حالت ان سے نہیں دیکھی جاتی۔ اسی طرح ان کو یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ انقلابی موقف پر قائم رہ کر ان کو خاندان سے بھرپور اسپورٹ مل سکتی ہے اور نہ پارٹی انقلابی بن سکتی ہے۔ چنانچہ میاں نواز شریف اور مریم صاحبہ نے میاں شہباز شریف کو اب اپنا طریقہ آزمانے کا پورا موقع دے دیا ہے اور خود پراسرار خاموشی کی رسوائی برداشت کر رہے ہیں۔ ڈیل دینے کی صلاحیت رکھنے والوں کو مسلم لیگ (ن) سے سیاسی طور پر کوئی خاص خطرہ محسوس نہیں ہو رہا اور قانونی محاذ پر بھی واضح طور پر ان کو اپنا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن ان کی مجبوری یہ بن گئی ہے کہ وہ الیکشن کے بعد بننے والے نظام سے بری طرح مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی حد تک دوست ممالک کا دبائو بھی ہے۔ ماضی قریب میں جو چیزیں سامنے آئی ہیں اس کے بعد ان کے لئے آصف علی زرداری کو مزید ریلیف دینا ممکن نہیں تھا اور جب زرداری صاحب سے متعلق بھی سختی کرتے ہیں تو ان کے اور میاں نواز شریف کے ایک ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح انتخابات سے قبل چونکہ زیادہ برہمی میاں نواز شریف سے متعلق تھی تو نتیجے میں آصف علی زرداری کو ریلیف ملتا رہا لیکن اب زرداری صاحب کی دھمکیوں کے بعد زیادہ غصے کا نشانہ وہ بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے شریفوں کو ڈھیل دینا مجبوری بنتی جا رہی ہے، تاہم ڈھیل کے ڈیل میں بدل جانے کی راہ میں ابھی بہت ساری رکاوٹیں حائل ہیں۔ میاں نواز شریف خود آئوٹ ہو جانے کی قربانی پر تیار بھی ہو جائیں تو بدلے میں وہ بیٹی کے لئے سہولت چاہتے ہیں لیکن ڈیل دینے والوں کی خواہش کچھ اور ہے جس میں میاں شہباز شریف بھی کسی حد تک ان کے ہمنوا نظر آتے ہیں۔ اس رکاوٹ کی وجہ سے بھی جلد ڈیل ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
ایک وضاحت:
پی ٹی آئی اور اس کے پسِ چلمن حامیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر جعلی خبریں پھیلانے کا جو سلسلہ شروع ہو گیا تھا، وہ اب اپنی انتہائوں کو پہنچ چکا ہے۔ میں چونکہ سوشل میڈیا پر جواب دیتا ہوں اور نہ تبادلۂ خیال کرتا ہوں بلکہ صرف اپنے کالم اور ٹی وی پروگرامات کے لنکس اپنی ٹیم کے ذریعے شیئر کرتا ہوں، اس لئے میں خصوصی طور پر فیک اکائونٹس، فیک خبروں اور ٹرولنگ کی زد میں رہتا ہوں۔ میری تصاویر کے ساتھ اپنی مرضی کے بیانات بنا کر سوشل میڈیا اور وٹس ایپ گروپ کے ذریعے پھیلائے جاتے ہیں لیکن چونکہ اب ہم بھی اس گندے کھیل کا نشانہ بننے کے عادی ہو گئے ہیں اس لئے ان کا نوٹس لیتا ہوں اور نہ اثر، تاہم گزشتہ دو تین روز سے مجھ سے اور عاصمہ شیرازی صاحبہ وغیرہ سے منسوب ایک جعلی وٹس ایپ اسکرین شاٹ، حسد کی بیماری میں مبتلا صحافی، سوشل میڈیا پر پھیلاتے نظر آئے جس کی وجہ سے یہ وضاحت ضروری سمجھی۔ گزارش یہ ہے کہ وطن واپسی اور جیل جانے کے بعد سے لے کر آج تک میرا محترمہ مریم نواز کے ساتھ ٹیلی فون یا وٹس ایپ وغیرہ پر کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اگر کوئی ثابت کر سکا تو میں معافی مانگ کر صحافت چھوڑنے کو تیار ہوں، تاہم گھٹیا ذہنیت کے مالک یہ جان لیں کہ اس طریقے سے وہ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ عزت اور ذلت دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم سے محبت کرنے والے اور عزت دینے والے جانتے ہیں کہ میں اس صحافت پر لعنت بھیجتا ہوں جو کسی فرد، پارٹی یا ادارے کی ڈکٹیشن پر کی جائے۔