آپ کس کس اسد عمر کو بدلیں گے، یہاں تو ہر کونے میں اسد عمر بیٹھا ہے۔ اس صدر مملکت کا کیا کریں جو فرمایا کرتے تھے کہ ایوان صدر میں نہیں رہیں گے لیکن اب اس کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے اڑانے کے بعد کبھی مشاعروں پر کروڑوں روپے اڑاتے ہیں تو کبھی ان کی اہلیہ پُر تعیش دعوتوں کا اہتمام کرتی نظر آتی ہیں۔ ممنون حسین کی طرح کام ان کا کوئی نہیں لیکن پروٹوکول اور سیکورٹی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کنونشن سینٹر میں اس وجہ سے امام کعبہ کی تقریب میں سعودی مہمانوں کو دھکے کھانا پڑے اور علمائے کرام تک کو ہال سے باہر رہنا پڑا۔ شروع میں نمائش کے لئے کبھی ائرپورٹ پر قطار میں کھڑے ہو کر اور کبھی بنچ پر لیٹ کر تصاویر بنوانے کی ڈرامہ بازی کرتے رہے لیکن اب ان کی شان ہی نرالی ہو گئی ہے۔
وزیراعظم جب وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے اور وہاں پر موجود بھینسوں کی نیلامی کا ڈرامہ کر رہے تھے تو ہم چیخ رہے تھے کہ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ غیر ملکی مہمانوں کی آمد کی صورت میں اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن اس وقت چونکہ دکھاوا مقصود تھا، اس لئے اس گھر کے باتھ روموں تک کی ویڈیوز دکھا کر اعلان کیا گیا کہ اس کو یونیورسٹی بنا دیا جائے گا لیکن پھرجب محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آرہے تھے تو یہ سوال در پیش ہوا کہ ان کو گارڈ آف آنر کہاں دیا جائے اور انہیں کہاں ٹھہرایا جائے، چنانچہ یوٹرن لے کر وزیراعظم ہائوس کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہوا اور اس پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔ اب ایک تو اس کی ہر چیز حقیقی معنوں میں شاہانہ بن گئی اور دوسرا محمد بن سلمان نے اپنے جم کے سامان کو یہاں پر چھوڑ دیا۔ چند روز قبل وزیراعظم نے وزیراعظم ہائوس کا دورہ کیا اور جب عالی شان باتھ رومز اور جم کا شاہانہ سامان دیکھا تو ان کا دوبارہ وہاں منتقل ہونے کے لئے دل مچلنے لگا۔ جب وزیراعظم سیکرٹریٹ میں آگ کا بہانہ مل گیا تو اسی روز وہاں منتقل ہو گئے۔ کابینہ کا اجلاس بھی اگلے روز وہاں طلب کیا گیا لیکن جب میں اس یوٹرن کو سامنے لے آیا تو اگلے روز پھر میٹنگز کے لئے سیکرٹریٹ منتقل ہو گئے تاہم یہاں یونیورسٹی کا خیال ہمیشہ کے لئے دفن ہوتا نظر آرہا ہے۔
غرض نادیدائوں کی ایک فوج ہے جو تبدیلی کے نام پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ چند روز قبل وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے درجنوں کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر بیان داغ دیا کہ عافیہ صدیقی کے معاملے پر چند روز میں قوم کو خوشخبری مل جائے گی حالانکہ طالبان اور امریکہ کے مذاکرات میں عافیہ صدیقی کے موضوع پر کوئی بات ہوئی ہے اور نہ ہو گی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عافیہ صدیقی پاکستانی ہیں اور ان پر القاعدہ سے تعلق کا الزام ہے۔ امریکہ اور طالبان کا ابھی تک صرف جس نکتے پر اتفاق ہوا ہے، وہ امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کا غیر افغان عناصر سے ہر طرح کا تعلق توڑنے کا نکتہ ہے۔ یوں وہ عافیہ صدیقی جو غیرافغان ہے، کا موضوع زیر بحث ہی نہیں لا سکتے۔ ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ عافیہ صدیقی گوانتا نامو بے یا بڈگرام میں نہیں، جن پر امریکی عدالتوں کا اختیار نہیں بلکہ انہیں امریکی عدالت سے سزا دلوائی گئی ہے۔ وزیر موصوف کے بیان کے بعد میں نے وزارت خارجہ اور امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو ان کی طرف سے بتایا گیا کہ عافیہ کے موضوع پر ان دنوں کوئی پیش رفت ہوئی ہے اور نہ ہو رہی ہے۔ میں حیران تھا کہ یہ دعویٰ وزیر صاحب نے کس بنیاد پر کیا ہے؟ اور جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ انہوں نے صرف اخبار میں سرخی لگانے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لئے یہ دعویٰ کیا۔
وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی جو ان دنوں وزیر داخلہ کم اور خطیب یا ذاکر زیادہ دکھائی دیتے ہیں، تین دن کی تاخیر کے بعد ہزارہ کمیونٹی کے دھرنا دینے والے مظلوموں کی خبر گیری کے لئے جب کوئٹہ تشریف لے گئے تو خطاب کا جادو جگاتے ہوئے کہنے لگے کہ وزیراعظم نے ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی سے تفصیلی بات کی۔ حالانکہ ایران کے سابق صدر رفسنجانی کب کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ وزرا صرف ان تماشوں میں مصروف ہیں لیکن اہم فیصلے جہانگیر ترین اور ندیم بابر جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ وہاں اسد عمر واشگٹن میں آئی ایم ایف سے قرضے کی بھیک مانگ رہے ہیں اور یہاں یہ دونوں حضرات اس سے ملنے والی رقم سے سرکولر ڈیٹ کے ذریعے استفادے کی تیاریوں میں لگے ہیں۔ اصل حکومت کچھ اور لوگ چلا رہے ہیں۔ بنی گالہ اور وزیراعظم سیکرٹریٹ پراسرار اور غیرمنتخب لوگوں سے بھر گئے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم کے ذاتی دوست اور خدمتگار ہیں۔ دوسری طرف ان ذاتی دوستوں کے دوست اور خدمتگاروں کے خدمتگار ہیں۔ پھر مختلف سرمایہ داروں اور کمپنیوں کے نمائندے ہیں جو تبدیلی لانے کے لئے اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ کوئی حکومتی عہدہ لے چکا ہے تو کوئی کسی بورڈ کا ممبر بن گیا ہے۔ گزشتہ کالم میں میں نے خیبر پختونخوا میں دس ڈیفکٹو وزرائے اعلیٰ کا ذکر کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرکز میں ہر محکمے اور ادارے کے درجنوں مختار بن گئے ہیں۔ وزیراعظم نے مسلم لیگ(ق) کے خالق اور پرویز مشرف کے دست راست بریگیڈئر(ر) اعجاز شاہ کو نیشنل سیکورٹی ایڈوئزر لگانا چاہا۔ ان سے وعدہ کیا تھا۔ ان کے لئے دفتر بھی تیار ہوا۔ نوٹیفکیشن بھی تیار تھا لیکن اچانک انہیں ایک کال آئی اور انہیں اس اقدام سے یوں کہہ کر روک دیا گیا۔ چنانچہ وزیراعظم نے اعجاز شاہ سے معذرت کر لی لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ انہیں کہاں کھپایا جائے۔ چنانچہ انہیں پارلیمانی امور کا وزیر بنا دیا گیا اور اب انہیں وزیر داخلہ بنانے پر غور ہو رہا ہے۔ گویا نئے پاکستان میں کام کے لئے بندہ نہیں بلکہ بندے کے لئے کام ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تبدیلی لانے والے صرف چند ماہ بعد متبادل ڈھونڈنے لگ گئے ہیں۔