مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے اور اُس کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ بعض اوقات کوئی ایک واقعہ اور حادثہ بھی بڑے سانحات کو جنم دے دیتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ پہلے قیادت خود جذباتی فضا بنا لیتی ہے اور اس کا ارادہ معاملے کو ایک خاص حد سے آگے بڑھانے کا نہیں ہوتا لیکن پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ خود اس جذباتی فضا اور رائے عامہ کی یرغمال بن جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے ارادے کے برخلاف قدم اٹھانا پڑتے ہیں۔ یوں اب بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ کوئی مرحلہ ایسا آجائے کہ سیاسی مقاصد کے لئے ڈرامہ بازی کرنے والی بھارتی قیادت اپنی پیدا کردہ رائے عامہ کی یرغمال بن کر مجبوراً جنگ کی طرف چلی جائے۔ یوں پاکستان کے محافظین کو اس حالت کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے لیکن جہاں تک بھارتی قیادت کی اس روش کا تعلق ہے تو یہ ڈرامہ بازی ہم اس سے پہلے کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ جنونی ضرور ہے لیکن بھارتی قیادت اتنی بے وقوف نہیں کہ ایٹمی پاکستان سے جنگ کی حماقت کر بیٹھے۔ حالیہ جنگی بخار سے بڑھ کر بخار انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد پیدا کیا گیا تھا۔ بھارت نے اس سے بڑی ڈرامے بازی ممبئی حملوں کے بعد کی تھی۔ اسی طرح کی دھمکیاں پٹھان کوٹ اور اوڑی حملوں کے بعد بھی دی گئی تھیں۔ مقصد اور ہدف انتخابات کے تناظر میں جذباتی فضا پیدا کرنا اور پاکستان کو سفارتی محاذ پر دباو میں لانے کے سوا کچھ نہیں۔ بھارتی قیادت شاطر ہے، ذہین ہے، مکار بھی ہے اور تجربہ کار بھی۔ اسے اندازہ ہے کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور ایٹمی پاکستان سے جنگ کی اسے کیا قیمت چکانا پڑے گی۔ لہٰذا اس جنگی بخار کے باوجود میری آج بھی وہی رائے ہے جو سابق آرمی چیفس جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کی تھی۔ یعنی پاکستان کو باہر سے نہیں، اندر سے خطرہ ہے اور بھارتی قیادت، پاکستانی خطرے کو بڑھا چڑھا کر جو کچھ کر رہی ہے اس سے اس کو پاکستان سے نہیں بلکہ اندر موجود خطرہ بڑھے گا۔ بلکہ غور سے دیکھاجائے تو بھارتی قیادت جو کچھ کررہی ہے اس کا پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے۔ وہ یوں کہ پاکستانی قوم جس واحد بنیاد پر متحد ہوتی ہے وہ بھارت ہے اور جب بھی بھارت جنگی فضا بنالیتا ہے تو بدترین سیاسی، ادارہ جاتی اور علاقائی تقسیم کی شکار پاکستانی قوم ایک ہونے لگتی ہے۔
نریندر مودی جس راستے پر حالات کو لے جارہے ہیں اس کا ان شاء اللہ پاکستان کو تو کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن وہ بھارت کو ماضی کا پاکستان بنا دے گا۔ غور سے دیکھا جائے تو وہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے بھارت کو اس راستے پر لے جارہا ہے جس سے پاکستان تائب ہو رہا ہے۔ مثلاً ماضی میں پاکستان میں بھارت دشمنی کے جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اس کی بنیاد پر قوم کو جذباتیت کا شکار بنایا گیا۔ پاکستان میں افغانستان اور بھارت کے تناظر میں انتہاپسند تنظیموں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا۔ لیکن حتمی نتیجے کے طور پر ان لوگوں نے بھارت یا کسی اور پاکستان دشمن ملک کا تو کچھ نہیں بگاڑا البتہ آخر میں اپنی ریاست اور اپنی قوم کے لئے مصیبت بن گئے۔ جو کانٹے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں حب الوطنی کے نام پر بوئے گئے تھے، انہیں جنرل پرویز مشرف کے دور سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور تک پلکوں سےچننا پڑا۔ اس انتہا پسندی کو قوم کے وسیع تر مفاد کے نام پر فروغ دیا گیا تھا لیکن پوری قوم اور پاکستانی فوج کو بے تحاشا قربانیاں دے کر اور خون کی ندیاں بہا کر آج ان سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان کے ابتر حالات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ہم نے آزادانہ سوچ اور مکالمے کو فروغ نہیں دیا۔ جن لوگوں نے بھی افغانستان اور بھارت سے متعلق روایتی سوچ سے ہٹ کر بات کرنے کے جرات کی، ہماری ریاست نے انہیں غدار، بھارتی ایجنٹ، افغانی ایجنٹ اور اسی طرح کے دیگر القاب سے نوازا۔ ماضی میں تو زیادہ تر بلوچ، سندھی اور مہاجر، قومیتوں کے لیڈروں اور دانشوروں کو غدار قرار دلوایا گیا لیکن پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اور وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے والے میاں نواز شریف جیسے لوگوں تک یہ سلسلہ دراز ہوا۔ اس رجحان کی وجہ سے جہاں پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا، وہاں مکالمہ بند ہوا۔ ہم لکیر کے فقیر بن گئے اور جب تک کسی پالیسی کے بھیانک نتائج نے ہماری آنکھیں نہیں کھولیں، ہم اسی غلط ڈگر پر گامزن رہے۔ دوسری طرف بھارت میں جمہوریت کا تسلسل قائم رہا- تخلیقی اور تنقیدی سوچ پروان چڑھتی رہی۔ جس کا فائدہ بھارت کو یہ ہوا کہ وہ سفارتی اور اقتصادی میدانوں میں آگے نکلتا رہا۔ وہاں میڈیا پھل پھول گیا۔ سوچ کی اس آزادی کی وجہ سے ان کی فلمی صنعت دنیا کی دوسری بڑی صنعت بن گئی اور انہی ہتھیاروں کے ساتھ وہ پاکستان کو شکست دیتا رہا لیکن آج اس معاملے میں بھی بھارتی قیادت نے اپنے ملک کو ماضی کے پاکستان کی راہ پر گامزن کر دیا۔ آج بھارت میں غداری کے فتووں کا رجحان فروغ پارہا ہے۔ اپنی حکومت کی پالیسی پر تنقید کرنے والوں کو غداری کے الزامات سے نوازا جاتا ہے۔ سوچ پر پہرے بٹھائے جارہے ہیں۔ جاوید اختر جیسے تخلیقی ذہن رکھنے والے لوگوں کو بھی پاکستان کے خلاف سرکاری سوچ اپنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ آزادی کادعویدار بھارتی میڈیا پاکستان کے آمروںکے دور کے میڈیا کا منظر پیش کررہا ہے۔ اب وہاں کوئی ایسی فلم نہیں بن سکے گی جس میں پاکستان سے متعلق روایتی سوچ سے انحراف کیا گیا ہو لیکن یہ سلسلہ یہاں نہیں رکے گا۔ اب وہاں دیگر موضوعات سے متعلق بھی ماضی کی طرح آزاد خیالی کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ ہم پاکستانیوں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ اس طرح کا جذباتی ماحول تخلیقی عمل کے لئے کس طرح زہر قاتل ہوتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مودی سرکار اور بی جے پی نے بھارت میں ان اداروں کی تباہی کی بنیاد رکھ دی ہے جن پر وہ اتراتا پھرتا تھا۔
اقتصادی اور سفارتی میدانوں میں اگر ماضی میں بھارت پاکستان سے آگے نکل گیا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کی سوچ بھارت کی گرد گھومتی رہی لیکن بھارت نے ہر ملک اور ہر معاملے کو اپنے مفادات کے آئینے میں دیکھا۔ مثلاً ہم افغانستان کی حکومتوں اور گروہوں کےبارے میں یہ رائے رکھتے رہے کہ وہ اگر بھارت کے دوست ہیں تو ہمارے خیرخواہ کبھی نہیں ہوسکتے لیکن بھارت نے افغان حکومتوں اور گروہوں کو اس آئینے میں نہیں دیکھا کہ ان کا پاکستان کے ساتھ ماضی یا حال میں کیا تعلق رہا ہے بلکہ وہ اگر ان کے کام آسکتا تھا تو وہ ہر گروہ اور حکومت کو گلے لگاتا رہا۔ اس سوچ کا پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اب پاکستان اپنی سوچ بدل رہا ہے۔ وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ ایران انڈیا کے بہت قریب ہے لیکن پاکستان اس کے باوجود ایران کو قریب کرنا چاہتا ہے۔ اب پاکستانیوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا کہ سعودی ولی عہد اگر پاکستان کے بعد بھارت بھی جارہے ہیں اور وہاں پاکستان سے زیادہ سرمایہ کاری کرر ہے ہیں تو ان کی پاکستان میں اتنی زیادہ آو بھگت کیوں ہو رہی ہے لیکن بھارت میں یہ آوازیں اٹھتی رہیں کہ پاکستان کے دوست سعودی ولی عہد کی یہاں آوبھگت کیوں ہورہی ہے۔ درحقیقت یہ تنگ نظری تجارت اور ترقی کی دشمن ہے اور بھارتی حکومت خود پاکستان دشمنی میںاندھی ہوکر اپنی ریاست کو ایک تنگ نظر ریاست بنانے چلی ہے جس کا خود اسے ہی نقصان ہو گا۔ مذکورہ تناظر میں دیکھاجائے تو اس حقیقت کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہئے کہ بھارت کو اصلا ً پاکستان سے نہیں بلکہ اپنے اندر سے اور بالخصوص مودی کی سوچ سے خطرہ ہے اور پاکستان کو آج بھی اصلاً بھارت سے نہیں بلکہ اندر سے خطرہ ہے۔ پاکستانی انتہاپسندوں بڑھک بازوں نے اگر بھارت کا کچھ بگاڑا ہو تو پھر بھارتی انتہاپسند بھی خاکم بدہن پاکستان کا بگاڑ دیں گے لیکن اگر پاکستانی انتہاپسندوں اور بڑھک بازوں نے بھارت کا نقصان کرنے کے بجائے صرف اپنے ملک کا ہی نقصان کیا ہے تو پھر بھارتی انتہاپسند اور بڑھک باز بھی اپنے ہی ملک پر گریں گے۔ اس لئے ہم پاکستانیوں کو کسی صورت فکر مند یا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ سب کو یک آواز ہوکر کہنا چاہئے کہ شکریہ مودی جی۔