جنرل اسمبلی کی تقریر اچھی تھی۔ موضوعات بھی صحیح سلیکٹ کئے تھے اور کشمیر کا کیس بھی موثر انداز میں پیش کیا۔ نریندر مودی کو ہٹلر اور اُن کے فلسفے کو نازی ازم سے مشابہ بنانے کا بیانیہ اچھے انداز میں بیان کیا جو مغرب میں بکتا ہے اور کسی حد تک مودی کی چڑ بن گیا ہے لیکن ایک تقریر کو اس طرح پیش کرنا کہ جیسے کشمیر فتح ہو گیا، بھی مناسب نہیں۔
یہ توقع ہر گز نہیں تھی کہ وزیراعظم عمران خان کشمیر آزاد کرا کر واپس آئیں گے لیکن یہ امید ضرور دلائی گئی تھی کہ کسی نہ کسی سطح پر پیش رفت کر کے ہی واپس لوٹیں گے مگر افسوس کہ ہمیں پاکستان یا کشمیر کے حق میں کوئی پیش رفت نظر نہ آئی۔
سوال یہ ہے کہ اتنی ملاقاتوں کے باوجود کیا وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان سے اپنے حق میں اور انڈیا کے خلاف ایک لفظ اگلوانے میں کامیاب ہوئے؟ نہیں۔ کیا ترکی، ملائیشیا اور چین (جو پہلے سے پاکستان کے ساتھ تھے) کے علاوہ کسی اور ملک کے سربراہ نے انڈیا کی مذمت کی؟ نہیں۔ کیا انڈیا 5اگست کے اقدام کو واپس لینے پر آمادہ ہوا؟ نہیں۔
کیا مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا خاتمہ ہوگیا یا بھارتی مظالم میں کمی کا کوئی اشارہ ملا؟ نہیں۔ کیا اقوام متحدہ نے کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل کروانے کا کوئی عندیہ دیا؟ نہیں۔
ہمارا مطالبہ تھا کہ امریکہ انڈیا پر دبائو ڈالے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کو بتا دیا کہ انہوں نے مودی سے بات کی لیکن وہ پیچھے ہٹنے کو تیار ہے اور نہ ثالثی مان رہا۔ اس لئے آپ لوگ ہی گزارا کریں۔
سوال یہ ہے کہ اندرونی محاذ کو تقریروں، جھوٹے وعدوں اور ڈراموں کی بھینٹ چڑھانے کے بعد کیا ہم خارجہ پالیسی کو بھی ان حرکتوں کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کب اس قوم کو یہ حقیقت بتائیں اور سمجھائیں گے کہ ہم پھنس گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تقریر بہت اچھی ہو گئی لیکن آگے کیا ہوگا؟۔ مقبوضہ کشمیر تو کیا آزاد کشمیر میں بھی جذبات آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کی طرف سے جنگ کا مطالبہ اس کی ایک جھلک ہے۔
ہم نے پوری قوم اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے انتظار میں بٹھائے رکھا تھا۔ ہم یہ تاثر دے رہے تھے کہ افغانستان کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کا محتاج ہے اور وہ ثالثی کروا کر بھارت سے کشمیر کے حق میں کچھ نہ کچھ کروا ہی لے گا لیکن الٹا ڈونلڈ ٹرمپ وہاں مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آئے۔
ہیوسٹن میں ان کی موجودگی میں مودی نے پانچ اگست کے اقدام کا ذکر اور دفاع کیا، حاضرین سے اس پر تالیاں بجوائیں لیکن ٹرمپ کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی۔ ماضی کے امریکی صدور کی طرح ثالثی کی پیشکش وہ ضرور کرتے رہے لیکن یہ شرط لگا کر کہ ایسا تب ہوگا کہ جب دونوں فریق مانیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے کونسل آن فارن ریلیشنز سے خطاب اور ٹی وی انٹرویوز میں عالمی برادری کے رویے پر مایوسی کا اظہار کیا اور تبھی تو انہوں نے جنرل اسمبلی میں جذباتی تقریر کی۔
اسلام آباد ائیرپورٹ پر ان کے خطاب میں یہ فقرہ کہ دنیا ساتھ دے یا نہ دے ہم کشمیریوں کے ساتھ ہوں گے، بذات خود غمازی کرتا ہے کہ وہ امریکہ اور عالمی برادری کے رویے سے کس قدر مایوس ہو کر لوٹے ہیں۔
گویا او آئی سی، اقوام متحدہ اور امریکہ وغیرہ کا آپشن ہم نے آزما لیا جس سے نہ تو انڈیا مذاکرات پر آمادہ ہوا، نہ اس پر دبائو میں اضافہ ہوا اور نہ وہ پانچ اگست سے پہلے والی پوزیشن پر جانے کے لئے آمادہ نظر آرہا ہے۔
یہ بات بالکل درست تھی کہ مودی نے ہمیں بائونسر دیا تھا جس پر ہمیں چھکا لگانا تھا لیکن چونکہ ہم اپنے زور بازو سے بال کو کھیلنے کے بجائے امریکہ اور سعودی عرب جیسے امپائروں کی طرف دیکھنے لگے اس لئے چھکا تو کیا لگاتے اس بائونسر پر ایک رن بھی نہ بنا سکے۔
اب دوسرا راستہ بظاہر یہی ہے کہ ہم جنگ کریں لیکن عمران خان نے امریکہ میں بیٹھ کر ہی کہہ دیا کہ ہم حملہ نہیں کریں گے اور یہ کہ جنگ آپشن نہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اب آزادی کشمیر کے لئے اور کشمیریوں کو حوصلہ دلانے کے لئے ہمارا بیانیہ اور حکمت عملی کیا ہے؟۔
ہماری اب تک کی حکمت عملی پٹ چکی تو نیا بیانیہ اور اس کے لئے حکمت عملی کیا ہے؟ کسی زمانے میں ہمارا یہ بیانیہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی عسکری تنظیمیں بھارت کو زچ کریں گی اور وہ کسی حل پر آمادہ ہوجائے گا۔ وہ آپشن بھی نہیں رہا۔
اب ہمارے وزیراعظم دوبارہ جہاد کی بات کررہے ہیں اور اپنی تقریروں میں انہوں نے اسے ایک بار پھر مسلم اور غیر مسلم کی جنگ بنانے کی کوشش کی جو جہاں اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری سے اب ان کو بھی کوئی توقع نہیں تو دوسری طرف اس کی وجہ سے ہمارا سابقہ بیانیہ (انسانی حقوق اور حق خودارادیت) بھی دوبارہ الجھائو کا شکار ہو رہا ہے۔
ہم ابھی تو جذباتی ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اقوام متحدہ کے فورم پر پہلی مرتبہ کسی سربراہ حکومت کے منہ سے ایٹمی جنگ کی بات نکلی ہے اور جلد یا بدیر پاکستان کے دشمن اس عمل کو بھی ہمارے گلے کا طوق بنانے کی کوشش کریں گے۔
عمران خان کی تقریر کے جواب میں وہاں پر بھارت کے نمائندے نے جو جوابی تقریر کی اس میں مشرقی پاکستان کے تذکرے کے ساتھ ساتھ عمران خان کو نیازی کہہ کر پکارنے اور ساتھ ہی ساتھ ایس کے نیازی کا تذکرہ کرنے سے بھی پیغام ملتا ہے کہ انڈیا کس جارحانہ موڈ میں ہے۔
یوں ان حالات میں جوابی بیانیہ اور حکمت عملی بنانے کے لئے قوم کی اجتماعی ذہانت کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران اس کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔
تقریریں تو ہو گئی ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نازک حالات میں پاکستان کا جوابی بیانیہ تشکیل دیا جائے اور بھارت کی مزید شرانگیزیوں سے بچنے کے لئے حکمت عملی بنائی جائے۔