عدالتی معاملات کو سمجھتا ہوں اور نہ ان میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے مقدمات کے بارے میں اپنا طالب علمانہ موقف یہی رہا کہ شاید ان کو واضح طور پر مجرم ثابت نہ کیا جاسکا لیکن وہ بھی اپنے آپ کو معصوم ثابت نہ کر سکے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران ہم سیاستدانوں سے استدعا کرتے رہے کہ وہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں نہ لے جائیں لیکن افسوس کہ وہ اپنے گندے کپڑے عدلیہ کی لانڈری میں ہی دھونے کو ترجیح دیتے رہے۔ عدلیہ سے التجا کرتے رہے کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی مقدمات میں ضرورت سے زیادہ ملوث نہ کرے لیکن افسوس کہ اس کے برعکس ہوتا رہا۔ گزارش کرتے رہے کہ صرف انصاف نہیں ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شاید انصاف ہوا ہو لیکن انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ قومی احتساب بیورو اور اس کے چیئرمین کے امیج کا تو ایسا حال ہو گیا ہے وہ محتسب کم اور پی ٹی آئی کے رہنما زیادہ نظر آتے ہیں لیکن افسوس کہ اب عدلیہ کے بارے میں بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں اور اگر میاں نواز شریف کو سزا دینے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے معاملے پر بھی اسی طرح مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی جس طرح اس سے قبل چیئرمین نیب کے اقدامات، بیانات اور معاملات پر ڈالی گئی تو عدلیہ کی حیثیت نہایت مجروح ہو جائے گی۔
ذاتی طور پر میں مسلم لیگی ناصر بٹ کے اقدام کو نہایت گھٹیا فعل سمجھتا ہوں۔ مقصد کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، کسی انسان کو اعتماد میں نہ رکھ کر اس کی وڈیو بنانا یا گفتگو ریکارڈ کرنا نہایت گری ہوئی حرکت ہے۔ لیکن بہرحال انہوں نے یہ گری ہوئی حرکت کر ڈالی۔ مسلم لیگ(ن) کا ماضی میں عدلیہ سے متعلق کردار بھی کئی حوالوں سے قابلِ اعتراض ہے اور اس بات پر بھی دو رائے ہو سکتی ہیں کہ عدلیہ کے فورم پر لانے سے قبل کیا کسی جج کے بارے میں اسی طرح کی وڈیو میڈیا پر لانا مناسب تھا یا نہیں لیکن جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اس سے ایک بات تو بہر حال ثابت ہوئی کہ ارشد ملک صاحب کا کنڈکٹ کسی صورت ایک جج والا نہیں۔ انہوں نے اپنی صفائی میں جو پریس ریلیز جاری کی ہے، وہ بذات خود نہ صرف مریم نواز کے موقف کی بڑی حد تک تائید کررہا ہے بلکہ یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ ارشد ملک صاحب قطعاً بلند اخلاقی مقام پر فائز نہیں۔ وڈیو سے متعلق باقی دعوے درست ہیں یا غلط لیکن اس بات کی تو خود جج صاحب نے اپنی پریس ریلیز میں تصدیق کردی ہے کہ ان کی ناصر بٹ سے ملاقات ہوئی ہے اور یہ کہ یہ وڈیو اس ملاقات کی ہے۔ مثلاً اپنی پریس ریلیز میں وہ خود لکھتے ہیں کہ "مریم صفدر صاحبہ کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی وڈیوز نہ صرف حقائق کے برعکس ہیں بلکہ ان میں مختلف مواقع اور موضوعات پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے"۔
انہوں نے ملاقات کی تردید کی ہے اور نہ وڈیو کو مکمل جعلی قرار دیا ہے بلکہ صرف یہ فرما رہے ہیں کہ اُن کی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی ایک اصول پرست جج ہیں تو پھر وہ اس موقع پر ایک ایسے شخص سے کیوں مل رہے ہیں جو میاں نواز شریف سے قربت رکھتا ہے اور جو ان کا جانا پہچانا جیالا ہے۔ حکومتی ترجمانوں کا دعویٰ ہے کہ ناصر بٹ کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں اور اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کیا درجنوں مقدمات میں مطلوب ملزم شخص سے اتنے اہم سیاسی کیسز کی سماعت کرنے والے جج کا ملنا اور اسے اپنے گھر پر بلانا مناسب ہے؟ جج صاحب نے مریم نواز صاحبہ کے اس دعوے کی تردید نہیں کی کہ انہوں نے ناصر بٹ کو خود اپنے گھر بلایا تھا بلکہ وضاحتی بیان میں مزید تصدیق کرتے ہیں کہ ناصر بٹ اور اس کا بھائی عبداللہ بٹ ان سے بے شمار مرتبہ مل چکے ہیں۔ اسی طرح وضاحتی بیان میں وہ آگے لکھتے ہیں کہ "نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران مجھے ان کے نمائندوں کی طرف سے بارہا نہ صرف رشوت کی پیشکش کی گئی بلکہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں"۔ اب ججز کے کنڈیکٹ کے مطابق کسی فریق کی طرف سے رشوت کی پیشکش ہونے یا دھمکیاں ملنے کی صورت میں جج کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے سے اوپر متعلقہ اتھارٹی کو آگاہ کرے۔ اب اگر واقعی رشوت کی پیشکش ہوئی تھی یا دھمکیاں ملی تھیں تو جج صاحب کسی کے نوٹس میں نہیں لائے اور یوں وہ ججز کوڈ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور اگر ایسا نہیں ہوا تھا تو پھر وہ غلط بیانی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اسی طرح اسی پریس ریلیز میں اوپر جج صاحب لکھتے ہیں کہ گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور پریس ریلیز کے اختتام پر لکھتے ہیں کہ وڈیوز جھوٹی، جعلی اور فرضی ہیں۔ گویا ایک ہی بیان میں ایک طرف وڈیوز کو مکمل جعلی قرار نہیں دے رہے ہیں بلکہ اس میں ہونے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی شکایت کر رہے ہیں اور دوسری طرف وڈیو کو جھوٹی، جعلی اور فرضی قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح جج صاحب نے یہ نہیں کہا کہ میں قانونی چارہ جوئی کروں گا بلکہ پریس ریلیز کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے کہ اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونا چاہئے حالانکہ اخلاقیات کا تقاضا یہ تھا کہ مریم نواز صاحبہ کی پریس کانفرنس کے بعد پریس ریلیز جاری کرنے کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھتے۔ اس میں ان سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے اور ساتھ ہی یہ گزارش کرتے کہ متنازع ہو جانے کے بعد اب مناسب نہیں کہ وہ مزید ان مقدمات کی سماعت کریں جن کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن افسوس کہ صرف اس پریس ریلیز پر اکتفا کر کے وہ اگلے روز دوبارہ اُسی شان کے ساتھ عدالت میں بیٹھے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے کیسز کی سماعت کررہے تھے۔ آخر حد ہوتی ہے۔ محترم حسن نثار صاحب درست فرماتے ہیں کہ اس ملک کا مسئلہ معاشیات کا نہیں اخلاقیات کا ہے۔