Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Hum Jamhuriat Ke Qabil Hain

Kya Hum Jamhuriat Ke Qabil Hain

پاکستان میں سیاست کا معیار اور تنزلی دیکھ کر اکثر یہ سوال ذہن میں آتے ہیں کہ کیا ہماری قوم اور ملک جمہوری سیاست کے قابل ہے؟ کیا یہاں آزادی اظہار ہونا چاہیے؟ کیا ہم کبھی اپنی ذاتی انا اور ذاتی فائدے کی تگ و دو سے باہر نکل سکیں گے؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ ہم ایک فرد ایک ووٹ کا اصول استعمال کرتے ہوئے اپنی حکومتیں اور اپنے لیڈر چنیں؟ کیا ہم واقعی ایک قوم ہیں یا کچھ قومیتوں اور افراد کا مجموعہ ہیں جو دنیا کا ہر اچھا اصول اور طریقہ تو اپنے لئے مانگتے ہیں مگر جب ان اصولوں کی پاسداری کا وقت آتا ہے تو فوراً اپنی ذاتی انا اور چھوٹے سے مالی یا دنیاوی فائدے کے لئے وہ اصول بھول جاتے ہیں۔

یہ بڑے بنیادی سوالات ہیں، اگر ان کے جوابات ہم نہیں دے سکتے تو کیا پھر ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 60کی دہائی میں جب کہا تھا کہ یہ قوم جمہوریت کے لئے ابھی تیار نہیں تو وہ ٹھیک تھے۔ ہم دنیا کے ہر جمہوری اصول کی مثال فوراً دیتے ہیں یعنی اگر کوئی ریل کا حادثہ ہو جائے تو فوراً ریلوے کے وزیر کا استعفیٰ مانگ لیتے ہیں یا کوئی لیڈر چوری یا چھوٹی سی گڑ بڑ کرتا ہوا پکڑا جائے تو اسے ایک اصول کے تحت اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی بجائے اس کا دفاع شروع کر دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں جمہوری ملکوں کی روز ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں حتیٰ کہ ان ملکوں میں بھی لوگ اور لیڈر کچھ شرم اور حیا کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، جہاں پاکستان کی طرح کی شخصی اور اظہار کی آزادیاں موجود نہیں ہیں۔ ابھی حال ہی میں عراق جیسے ملک میں وزیر اعظم نے عوامی مظاہروں کے بعد حکومت چھوڑنے کا اعلان کیا۔ مغربی ملکوں کی مثال دینا تو بددیانتی ہو گی۔ امریکہ میں تو عوامی خدمت اور سیاست کے معیار اتنے سخت ہیں کہ شاید پاکستان وہاں تک کبھی بھی نہ پہنچ سکے۔ امریکہ میں اگر کوئی گورنر یا اسمبلی کا ممبر کسی سے کوئی تحفہ لے لیتا ہے اور قواعد کے مطابق بتاتا نہیں تو پھر سمجھ لیں جس دن میڈیا میں خبر آتی ہے وہ اس کا نوکری یا لیڈری کا آخری دن ہوتا ہے۔ مثالیں دینا بیکار ہے کیونکہ ہزاروں موجود ہیں۔ حال ہی میں عراق کے علاوہ ہانگ کانگ، چلی، فرانس، انڈونیشیا، پیرو، ہیٹی اور لبنان میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر چھوٹے اور بڑے مسئلے اٹھائے اور اپنا جمہوری حق استعمال کیا، ہمارے یہاں ایک مولانا کچھ بچوں کو اسلام آباد کی سیر کروانے لے آئے اور اسے ملین مارچ کا نام دے دیا۔ خود صدر ٹرمپ کو مواخذے کا سامنا ہے اور اگر ذرا غور سے دیکھیں تو ان پر الزام کیا ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر کو امداد دینے کے لئے یہ چھوٹا سا (ہمارے طور طریقوں اور معیار کے مطابق) مطالبہ کر دیا کہ آپ ان کے مخالف جوزف بائیڈن اور ان کے بیٹے کے کاروبار کے بارے میں تحقیقات کریں وہ کارروائی تو ہوئی نہیں مگر یہ بات کھل گئی کہ صدر ٹرمپ نے یہ بات کہی تھی۔ بے شمار سرکاری افسر، سفیر اور ان کے معاونین ازخود کانگریس کی کمیٹی کے بلانے پر پیش ہو گئے اور ساراکچا چٹھا کھول دیا۔ صدر ٹرمپ کی پارٹی کے لوگ کوشش کرتے رہے کہ ان کی پارٹی کو بڑا نقصان نہ ہو جائے مگر یہ کارروائی ابھی جاری ہے اور لفظی گولہ باری بھی جاری ہے۔ مگر ذرا الزام کو دیکھیں۔ صرف یہ کہا گیا کہ امریکہ یوکرین کو امداد دے گا اگر وہاں کے صدر ٹرمپ کے مخالف کی تحقیق کریں۔ اب اس کے مقابلے میں پاکستان کے سیاستدان اور لیڈروں اور ان کے غیر ملکی تعلقات اور رابطے اور لین دین پر غور کریں۔ صرف قطر یا سعودی عرب کے ساتھ اگر کچھ ہمارے لیڈر کرتے رہے ہیں اس کا 5یا دس فیصد بھی امریکہ میں کسی وزیر یا مشیر یا صدر کے بارے میں سامنے آ جائے تو وہ پھر سیاست میں رہ سکتا ہے نہ ہی جیل سے باہر۔ اصول تو دونوں ملکوں میں ایک ہے کہ عوام کی خدمت کرنے والے اور عوام کے ووٹوں سے حکومت میں آنے والے صرف ملک اور اپنے عوام کے لئے حکومت میں رہیں گے اور اگر انہوں نے کسی دوسرے ملک کے مفاد کو فوقیت دی یا ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو نقصان پہنچایا تو وہ پھر سیاست سے اور حکومت سے باہر تو جائیں گے ہی لیکن اکثر کیسوں میں جیل بھی جائیں گے۔

اب ہمارے ملک کے ان لیڈروں اور حکومت کرنے والوں کی داستانیں سن لیں عوامی ووٹوں سے اقتدار لیتے ہیں اور پھر اپنی جیب بھرنا، اپنے لوگوں کو کھلی چھٹی دینا کہ وہ خوب لوٹ مار کریں اور پیسے بنائیں تاکہ سیاست میں پیسے لگا کر دوبارہ اور بار بار حکومت کر سکیں۔ اب لیڈر کوئی بھی ہو اس طرح کی سیاست میں بغیر مال بنائے اور چوری چکاری کئے گزارہ کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ میں خود گواہ ہوں اور ایک واقعہ لکھ کر آگے بڑھوں گا۔ غلام مصطفیٰ کھر صاحب بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں وزیر بجلی اور پانی تھے، میں اور مرحوم افضل خان اور ہمارے دوست نصرت جاوید بی بی کے پاس بیٹھے تھے، وہ وزیر اعظم تھیں۔ آصف زرداری بھی قریب ہی موجود تھے۔ بات کرپشن پر ہو رہی تھی تو بی بی نے کہا کہ سیاست میں پیسے کا دخل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب عام امیر آدمی بھی الیکشن لڑنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ تو بات سے بات نکلی تو بی بی نے کھر صاحب سے کہا کہ جناب اگلے الیکشن کے لئے کچھ مال بنا لیں ہم سب حیران تھے مگر وہ بڑی سنجیدہ تھیں۔ کھر صاحب بولے میں یہ کام نہیں کرتا اور مجھے آتا بھی نہیں۔ بی بی نے فوراً آصف زرداری کی طرف اشارہ کر کے کہا ان سے سیکھ لیں یہ آپ کو ماہر اور ایکسپرٹ بنا دیں گے۔ کھر صاحب تو ہکا بکا رہ گئے مگر وہاں مذاق نہیں ہو رہا تھا۔ کئی لوگ اس واقعے کو جھوٹا کہیں گے اور شاید مجھے گالیاں دیں گے مگر یہ بات مجھے بالکل یاد ہے اور کھر صاحب نے خود بار بار کئی دفعہ بعد میں بھی یہ کہانی سنائی۔ تو اگر سیاست کے اصول صرف یہ ہوں کہ مال بنا کر اگلا انتخاب جیتنا ہے تو پھر باقی جمہوریت کو خیرباد کہنا ہی پڑے گا۔ آصف زرداری نے تو بی بی کی ہدایت دل سے لگالی اور ایسے ایسے معرکے سرانجام دیے کہ اب تک لوگ گن رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے نواز شریف اور زرداری میں کہ شریف خاندان اپنے اثاثے خاندان اور وہ بھی چند گنتی کے لوگوں کے درمیان اضافہ کرتا رہا مگر زرداری اپنے دوستوں اور پارٹی کے لوگوں سے مل کر انجوائے کرتے تھے۔ مجھے خود کئی دفعہ آفر کی کہ ہمارے ساتھ آ جائو اور کچھ بنا لو۔ کچھ لوگ جو چلے گئے اور امیر بھی ہو گئے اور بدنام بھی مگر نام کو کون پوچھتا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب جو مولانا فضل نے جیل میں زرداری کو مستعار کئے تھے وہ اب خود ایک بڑے "آدمی" بن گئے اور اکثر ہم کو دکھاتے تھے کہ میرا جوتا چار لاکھ روپے کا ہے۔ وہ اب بھی موجود ہیں اور نیب میں ان کا نمبر جلد ہی آنے والا ہے کیونکہ ان کا اکثر خاندان اب لندن میں گھروں کا مالک ہے۔

تو شرم اورغصہ جب آتا ہے جب پڑھے لکھے لوگ، امریکہ اور مغربی دنیا کی بڑی بڑی ڈگریاں لے کر یا دنیا بھر کے بڑے اداروں میں جہاں وہ قوانین اور اصولوں کے خلاف چھینک بھی نہیں مار سکتے تھے اب پاکستان میں کھلے عام چوروں اور ڈاکوئوں کا میڈیا میں دفاع کرتے ہیں اور ذرا برابر شرم محسوس نہیں کرتے۔ تب یہ سوال ذہن میں اٹھتے ہیں کہ اگر ہم لوگ چوری لوٹ مار عوام کا پیسہ خورد بُردکرنا، کک بیکس اور کمیشن سب کو جائزسمجھیں گے تو پھر جمہوریت کو کس طرح بچائیں گے۔ اگر یہی احوال رہا اور جتنا بڑا چور اتنی بڑی کرسی، کا اصول جاری رہا تو پھر ایک دن اور جلد ہی مالکان یہ کہنے پر مجبور ہونگے کہ بس بھائی بس زیادہ لوٹ نہیں چیف صاحب۔ سوچ لیں عوام کو سب بے وقوف سمجھتے ہیں مگر ووٹ انہی سے لینا ہے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.