Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hum Kahan Khare Hain

Hum Kahan Khare Hain

سب سے پہلے کئی ہفتے کالم نہ لکھنے کی معذرت۔ دو وجوہات تھیں۔ ایک وہ 70 سال پہلے 1950 میں شروع کی گئی آپ بیتی جو میرے والد صاحب نے اپنے دوست سعادت حسن منٹو کے کہنے پرلاہور میں شروع کی اور 1973 میں مکمّل کی اور پھر ہاتھ سے لکھی ہوئی مضبوط جلد کو محفوظ جگہ رکھ دیا اور کسی کو کچھ نہیں بتایا۔

42 سال وہ کتاب کہیں موجود رہی مگر گمشدہ رہی اور پھر ایک دن 2015 میں وہ مجھے ملی۔ پڑھ کر ہوش سے اڑ گئے۔ پھر آہستہ آہستہ اس پر کام شروع کیا اور اب اسکے چھاپنے کی تیاری ہے۔ مسودہ اور میرا دیباچہ تیار ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں چھپ جانے کی امید ہے۔ ایک نیا تجربہ ہوگا کیونکہ اکثر ادیب اپنے بارے میں ایسی اندر کی باتیں لکھتے ہوے کتراتے ہیں۔

مگر میں یہ منظر عام پر لا رہا ہوں کیونکہ یہ 1930 اور 1940 کی داستان ہے اور لکھے ہوے بھی 70 سال گزر گئے۔ والد صاحب کو فوت ہوے بھی 35 سال گزر گئے۔ دوسری وجہ کورونا کی تباہ کاریاں تھیں۔ میں تو بچا رہا مگر فیملی کے کئی لوگ پھنس گئے اور دو کزن تو زندگی سے گئے ایک بڑا مایوسی کا دور رہا۔ ملک سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں مل رہی تھی۔

اس وضاحت کے بعد۔ آج ملک کی کیسی تصویر نظرآ رہی ہے۔ ناامیدی، مایوسی بھی ہے اور ایک کرن امید کی بھی ہے۔ سازشوں کا دور ہے اور اب تو سب ہی کہتے اور مانتے ہیں کہ ملک پر مافیاز کا قبضہ ہے۔

وزیر اعظم عمران خان بری طرح ہر طرح کی سازش اور سازشی لوگوں میں گھرے ہوے ہیں مگر اپنے موقف پر کھڑے ہیں کہ چوروں کو نہیں چھوڑنا۔ انکے پاس اتنی سیاسی طاقت نہیں کہ بغیر کسی دو نمبر پارٹی یا لیڈر کے حکومت رکھ سکیں۔ وہ ایک سادہ دل اور دوسروں پر بھروسہ کرنے والے شخص ہیں مگر لوگ انھیں یا تو بیوقوف بنا جاتے ہیں یا انکی سادگی کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔

کئی ایسے فیصلے کرائے گئے یا ہو گئے جنکے بارے میں خان صاحب نے بعد میں کہا وہ نہیں چاہتے تھے۔ اپنے اور دوسرے سیاسی ساتھی انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ انکی حکومت ایک افرا تفری کا شکار نظر آتی ہے اور انکے مخالف جو خود تو گردن اور سر تک چوری اور لوٹ مار میں ڈوبے ہیں مگر روز ان پر بڑھ بڑھ کر ایسے حملے کرتے ہیں جیسے آج گرا دیں گے یا کل اور پھر انکی جگہ خود دوبارہ یا تیسری بار آ بیٹھیں گے۔ سارا زور بجٹ پر لگایا گیا اور نتیجہ وہی دھاک کے تین پات جیسے کئی دفعہ ہو چکا۔

سینیٹ میں، اسمبلی میں اور کئی اور مواقع پر۔ ہوتا کیا ہے یہ سمجھنا ضروری ہے۔ سب مانتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری کے بعد فیصلہ کرنے والوں کے پاس عمران خان ہی رہ گئے تھے۔ انکی عوام میں مقبولیت بھی تھی اور انکا ریکارڈ بھی صاف تھا۔ انکو بہت ووٹ ملے مگر اتنے نہیں کے وہ خود حکومت بنا سکتے تو دوسروں کو شامل کرنا پڑا۔

پھر حکومت بنی اور کام شروع ہوا مگر تجربہ کم تھا سیکھنے سکھانے میں وقت لگا سب کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کی صرف چور اور ڈاکو حضرات کے بغیر۔ فوج اور اسٹیبلشمنٹ انکے ساتھ کھڑے رہے اور دنیا بھر میں انہوں نے پاکستان کا بہترین امیج پیش کیا۔ مگر گھر میں مافیاز بہت مضبوط تھے اور انکو معاف کرنے پر تیار نہیں تھیں ہر ادارے میں انکے خلاف لوگ جمع تھے۔ اب دو سال بعد وہ بھی اس موڑ پر پہنچ گئے ہیں جسے انگریزی میں "do۔ or۔ die" کہتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی کچھ الجھن میں ہیں کہ کیا کریں۔ کوئی دوسرا لیڈر اور پارٹی نہیں جس پر سب کا اتفاق ہو اور عوام بھی قبول کر لیں۔ معاملات تیزی سے بگڑ رہے ہیں اور اب عمران خان کے پاس اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو اسمبلی توڑ کر دوبارہ الیکشن کرادیں یا باقی پارٹیاں مل کر دوسرا لیڈر منتخب کریں۔ دونوں راستے مشکل ہیں۔ آجکل الیکشن ہونا تقریباً ناممکن ہے اور دوسری پارٹیوں کے لوگ اپنی چوری اور ڈاکے بچانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ پھر جائیں توجائیں کہاں۔

جون 28 کو میں نے ایک ٹویٹ کیا جسکا عنوان تھا: "اگر بجٹ پاس نہ ہو: دنیا میں اگرحکومت بجٹ پاس نہیں کرا سکتی تو گرجاتی ہے پاکستان میں بھی یہی ہو سکتا ہے مگرہوگا نہیں کیونکہ کسی کو نہیں پتا اس حکومت کے بعد کیا ہوگا۔ وہی پرانے چورڈاکو واپس یا پھر فوجی یا جج صاحبان۔ نہ نہ کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔ خان کو ہی سنبھالنا پڑیگا"

اس ٹویٹ کو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے پڑھا اور ہزاروں نے پسند کیا اور تبصرہ کیا اکثر نے اتفاق کیا مگر ایک بات جو ایک مختصر ٹویٹ میں لکھنا ممکن نہ تھا لکھنا ضروری ہے۔

اکثر لوگ کہتے ہیں سیاست دان فیل ہو گئے تو پھر کیا فوج ہی رہ جائے گی حالت کو سنبھالنے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے کوئی چار پانچ سال پہلے جنرل راحیل شریف واشنگٹن آئے کئی دوسرے افسروں کے ساتھ۔ میں بھی واشنگٹن میں تھا اور جنرل عاصم باجوہ جو ISPR کے سربراہ تھے ان سے ملنے کا وقت طے ہوا۔

جنرل باجوہ اور انکے ساتھی پینٹاگون سے ہوٹل واپس آئے تو میں انتظار میں تھا انکے ہوٹل میں ہی بیٹھ گئے۔ باجوہ صاحب کے ساتھ باقی ساتھی بھی آ گئے اور کافی لمبی باتیں ہوئیں سب بہت ہشاش بشاش اور کھل کر بات کرنے والے تھے۔ سارے سیاسی اور غیر سیاسی موضوع زیر بحث آئے سب سے اہم بات جو میری سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کے فوج کی نئی لیڈرشپ کرپشن اور لوٹ مار کے سخت خلاف ہے اور اگر ان افسروں کو موقع ملا تو یہ ضرور صفائی کریں گے۔

آج ان جوان افسروں میں سے کئی بہت اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ کئی لوگ بھول جاتے ہیں کہ اگر عمران خان کو زبردستی ہٹایا گیا اور فوج کو مزید کھل کر کھیلنے کا موقع ملا تو پھر کیاصورتحال بنے گی۔ ابھی صرف خان چوروں کے خلاف بیان بازی ہی کر رہا ہے کیونکہ انکے پاس سیاسی اور انتظامی طاقت نہیں کہ خود سخت ایکشن لے سکیں۔ اب اگر وہ فوجی جو کرپشن کے بھی سخت خلاف ہیں اور انکے پاس ہر اقدام کرنے کی طاقت بھی ہوگی آ گئے تو پھر ان سارے مافیاز کا کیا ہوگا۔ سعودی عرب یا چین والا حل نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے کچھ مہینوں میں عمران خان اپنے حالات ٹھیک کر لیں اپنی صفوں میں سے مافیاز کے لوگ نکالیں اچھے لوگوں کو ساتھ رکھیں اور اگلے سال الیکشن کی تیاری کریں اور سب مل کر اللہ سے دعا کریں کہ کورونا جان چھوڑ دے۔۔۔ ورنہ؟

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.