Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khan Ka Inqilab Kis Rastay Par

Khan Ka Inqilab Kis Rastay Par

کئی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کو عمران خان کا انقلابی ایجنڈا دھندلا ہوتا نظر آ رہا ہے اور وہ ہر روز مزید شدت کے ساتھ مطالبات کر رہے ہیں کہ عمران خان کو ہٹایا جائے اور ایک ایسی حکومت لائی جائے جو معاملات کو سمجھ سکے، سنبھال سکے اور عوام کے لئے کچھ کر سکے۔ عوام کے لئے ریلیف دینا حکومت کو سنبھالنا اور سمجھنا تو بہت ضروری کام ہیں مگر جو پہلی بات ہے کہ ایک نئی حکومت لائی جائے وہ ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ میڈیا پر ہر روز شام سات بجے سے 11 بجے تک کوئی 60 ٹاک شوز ہوتے ہیں اور یہ اعداد و شمار صرف کچھ چینلز کی تعداد اور اوسطاً تین شوز کے حساب سے لگائی گئی ہے کوئی 16 چینل گنے گئے ہیں تو اور بھی بہت۔ ان ٹاک شوز میں تقریباً 150 کے قریب مہمان اور تجزیہ نگار روز اپنی کہانیاں سناتے ہیں اور 50 سے 60 اینکر بھی بڑھ بڑھ کر بولتے ہیں۔ تو اس بھر مار میں زیادہ تر حکومت پر تنقید کر کے اپنا منجن بیچتے ہیں اور ہر چھوٹی بڑی خبر اور جھوٹی سچی بریکنگ نیوز پر دھڑ سے پروگرام آ جاتا ہے۔ کسی نے اگر ایک تجزیہ کر دیا اور دو چار چوکے چھکے لگا دیے تو باقی سارے وہی ڈگڈگی بجانا شروع کر دیتے ہیں کہ نہ ہوم ورک کا ٹائم ہوتا ہے اور نہ ضرورت۔ اس لئے ہر چینل پر گھوم پھر کر وہی چہرے نظر آتے ہیں اور کچھ نے تو اپنا رول ایسا بنا لیا ہے کہ انہیں حکومت کی ہر بات اور ہر کام غلط نظر آتا ہے اور باقی سب ٹھیک۔ ایسی کھچڑی میں اب سارے پروگرام دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہتی کیونکہ صرف اینکر اور اس کے مہمان دیکھ لیں اور سمجھ لیں کیا بات ہونے والی ہے۔ تو ان پروگراموں میں اکثر اب یہ کہنے لگے ہیں کہ عمران خان سے حکومت نہیں چلنے والی اور تبدیلی ضروری ہو گئی ہے۔ یعنی نئی حکومت لائی جائے کہنے کو تو یہ بڑا آسان نسخہ ہے لیکن یہ کرے گا کون اور کیسے۔ کئی بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اور ہر ایک کی پوزیشن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

اول حکومت تو حکومت گرانے کے اگر آئینی طریقے استعمال کرنے ہوں تو پھر عدم اعتماد کی تحریک، حکومت کا بجٹ نامنظور کرنا، حکومت کا استعفیٰ دینا یا عدلیہ کے ذریعے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینا۔ آخری یہ کہ وزیر اعظم خود ہی اسمبلی تحلیل کر دیں۔ اب ان تمام 150 تجزیہ کاروں اور 60 اینکرز سے میرا سوال ہے ان میں سے کون سا طریقہ انہیں نظر آ رہا ہے ہوتا ہوا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ یہ 18 مہینے تو انہیں پچھلی حکومتوں کا کچرہ اور گندگی صاف کرنے میں لگ گیا۔ معیشت کو کسی نہ کسی طرح سنبھالنا اور اپنے اوپر بے شمار یو ٹرن لینے کے الزامات بھی اٹھا کر، IMF کو بلا کر مانگے تانگے کے وزیر اور ماہرین کو برداشت کر کے اور ایک ہچکولے کھاتی کشتی کو ٹھہرائو کی طرف لے جانا ہی پہلا اور ضروری کام تھا تو ان کا انقلاب تو گیا کئی سیڑھیاں نیچے۔ مگر خان صاحب اپنے اعلانات کی حد تک وہی کہتے رہے جو وہ پہلے کہتے تھے اور گھبرانا نہیں ہے کا نعرہ ابھی بھی نہیں رکا۔ مگر جو حالات اور لوگ ان سے ملے ان کے پاس سوائے صبر اور حوصلے کے کوئی آپشن تھا ہی نہیں۔

دوسرے سٹیک ہولڈرز۔ باقی ملک کی سیاسی پارٹیاں صوبائی حکومتیں اور خاص کر پچھلی حکومتوں کے لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ اس میں کچھ نرم دل رکھنے والی عدالتیں بھی شامل کر لیں۔ حزب اختلاف کی تین پارٹیوں یعنی ن لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی کی اولین ترجیح تو یہ ہے کہ کس طرح عمران خان کو ہٹا دیا جائے اور کسی پرانے طرز کے مل ملا کر چلنے والے، مک مکا کرنے والے مٹی پائو ٹائپ کا وزیر اعظم کو بٹھا دیا جائے تاکہ ان پر اس وقت جو بڑے بڑے چوری اور لوٹ مار کے کیس ہیں انہیں ختم کیا جائے۔ شریف خاندان اور زرداری کے لئے حکومت واپس لینے کا سوچنا تو ابھی ناممکنات میں سے ہے مگر جانا بچانا اور ملک میں واپس آ کر سیاست کرنا ہی شاید انہیں منظور ہو۔ ہر طرف افراتفری نظر آتی ہے اور جس دلدل میں ہاتھ ڈالا جائے تو پچھلی حکومتوں کے فیصلے اور منصوبے سامنے آ جاتے ہیں تو عمران خان اپنا انقلاب کیسے لائیں۔ اوپر سے بدقسمتی یہ ہے کہ سارا کام میڈیا کو خوش کرنے کے لئے کرنا پڑتا ہے کیونکہ عمران خان نے میڈیا کی جو اچھی بری کم زیادہ آمدن تھی اس پر بھی قدغن لگا دی ہے تو یہاں سے سوائے کوسنے اور بددعائوں کے کچھ نہیں ملتا۔ صبح شام اپوزیشن لیڈر بوڑھی ساس کی طرح بہو اور بیٹے کو الم غلم سناتے رہتے ہیں۔

تیسری پارٹی: عمران خان کی حکومت پر سب سے بڑا الزام یہ لگتا ہے کہ ایک کٹھ پتلی حکومت ہے یعنی سلیکٹیڈ۔ شور مچانے کو تو یہ الزام بڑا اچھا لگتا ہے مگر حقیقتاً اس میں جان اس لئے نہیں کہ ساری پرانی حکومتیں اسی طرح کی آدھا تیتر آدھا بٹیر کے فارمولے کے تحت آئیں یا لائی گئیں۔ 1988ء کی بے نظیر کی حکومت سے شروع کریں تو نواز۔ 1اور نواز۔ 2۔ اور نواز۔ 3۔ بی بی۔ 1اور بی بی 2۔ سب نے سمجھوتہ ایکسپریس کی سیر کی اور خاموشی سے مال پانی بنایا حتیٰ کہ انہیں نکال کر دوسری باری دوسروں کو دی گئی۔ تو اب عمران خان کی حکومت کو بھی اسی فارمولے کے تحت لایا گیا اور اس لئے کہ خلائی مخلوق کے پاس اب نواز اور بی بی 3اور 4کا آپشن بچا ہی نہیں تھا۔ ایک نیا چہرہ چاہئے تھا اور ایک ایسا چہرہ جو عوام کو بھی قبول ہو اور امید کی کرن نظر آئے۔ عمران خان نے اتنی سیٹیں جیت لیں کہ تھوڑی بہت امداد سے ان کی حکومتیں بن گئیں۔ اب تیسری پارٹی کے پاس کیا آپشن ہیں اگر اس حکومت کو فارغ کیا گیا۔ اول تو زبردستی بٹھانا مشکل ہے مگر ہٹا بھی دیا تو کیا نواز۔ 4اور بی بی۔ 3کا تجربہ پھر ہو گا۔ بہت مشکل ہے۔ ایک چوں چوں کا مربہ ٹیکنو کریٹ کی حکومت اگر بنائی گئی تو کیا وہ عوام کو منظور ہو گی اور کیا ریلیف دے سکے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ خلائی مخلوق کے لئے اس حکومت سے اچھا کوئی سیٹ اپ ہو ہی نہیں سکتا۔ کئی وجوہات ہیں 1۔ جمہوریت کا پردہ موجود ہے اور دنیا بھر میں قابل قبول ہے۔ 2۔ عمران خان نے ابھی تک کوئی گردن میں سریا نہیں دکھایا اور ہر مخلوق کے ساتھ مل جل کر چلنے کو ترجیح دی۔ 3۔ سالوں بعد سویلین اور فوجی ایک زبان بول رہے ہیں اور مل کر چل رہے ہیں۔ 4۔ عمران خان ایک روایتی سیاستدان تو نہیں مگر بلا کا اعتماد ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کا ایک مثبت امیج پیش کرتے ہیں۔ 5۔ ان کے مقابلے میں اگر کسی شاہ محمود یا امپورٹڈ شوکت عزیز یا چودھری ٹائپ کو بٹھایا گیا تو ملک میں ایک سیاسی بھونچال تو آئے گا۔ پی ٹی آئی کے لوگ اور عمران کے ساتھی آسانی سے تو ہار مان کر نہیں بیٹھیں گے۔ تو جب ایک کشتی آرام سے تیر رہی ہے اسے تند ہوائوں کے سپرد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چوتھی پارٹی: عوام اور پسے ہوئے طبقے۔ یہ سب سے زیادہ مظلوم ہیں مگر ایک بات سب کو سمجھ آ رہی ہے کہ عمران خان کوشش کر رہا ہے۔ چور اور ڈاکو ہیں، اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں مگر وہ ہار ماننے والا نہیں۔ اس کے مقابلے میں دوبارہ پرانی لوٹ مار پارٹیوں کو لوگ نہیں مانیں گے تو اگر عوام کو اس کھیل میں شامل رکھنا ہے اور جمہوریت کی شکل نہیں بگاڑنی تو پھر عمران خان کو آرام سے نکالنا آسان نہیں اور ابھی اس نظام کو دھکا دینے کی کسی کو ضرورت نہیں۔ آخری پارٹی:مافیاز اور مافیاز۔ یہ آخری سٹیک ہولڈر ضرور ہیں مگر ایک نئے نظام کے نہیں بلکہ پرانے فرسودہ کھانے پینے والے لوٹ مار کے دوست اور سب کو خرید کر ڈرا کر، ہرا کر اور مل ملا کر اپنی پرانی روش پر چلنے والے یہ Status que کی طاقتیں، عمران خان کے راستے کا سب سے بڑا پتھر ہیں۔ ان کا کوئی دین ایمان ہی نہیں، سوائے پیسہ اور مزید لوٹ مار کے۔ تو اس صورتحال میں ملک ایک نئے سال اور ایک نئی دہائی کی طرف بڑھ رہا ہے عمران خان کہتے ہیں 2020ء ایک اچھا سال ہو گا۔ ضرور ہو گا اگر سب نے مل کر اور بے ایمانی سے اس کشتی کو ڈبونے کی کوشش نہ کی مگر پھر ڈوبیں گے سب ہی۔

سب سے بڑی ذمہ داری ہماری عدلیہ اور ہماری خلائی مخلوق پر ہے کیونکہ اگر انہوں نے عمران خان کا ساتھ نہ دیا اور اس کو سیدھا راستہ نہ دکھایا کہ وہ اپنے اردگرد سے ان تمام مافیاز کے کچھ لوگ جو حکومت میں گھس گئے ہیں ان کو نکالے اور اپنے ایجنڈے پر واپس آئے اور جو انقلاب راستے میں ٹھہر گیا تھا اسے دوبارہ سیڑھی پر چڑھائے۔ انقلاب کے راستے میں اتنے لوگ ہیں کہ لگتا ہے رضیہ غنڈوں میں گھر گئی ہے مگر انقلاب چاہے وہ شفاف ہو یا ہلکا، یہی اب ایک آگے جانے کا راستہ ہے۔ بند سڑی ہوئی گلی کی طرف ملک واپس نہیں جا سکتا یہ سب کو سمجھنا ہو گا۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.