Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Software Update Ki Zaroorat

Software Update Ki Zaroorat

ایک ٹی وی ٹاک شو میں تین مہمان تھے اور تینوں مہمان غیر سیاسی تھے۔ بات سیاست سے ہی شروع ہوئی اور پوچھا گیا کے نواز شریف کو کیوں اپنی ہی فوج کے خلاف علم بغاوت اٹھانے کی ضرورت پڑ گئی۔ میں بھی شامل گفتگو تھا تو جو بات سمجھ میں آئی بتا دی یعنی شریف خاندان نے جب دیکھا کے تمام پچھلی گلی کے دروازے بند ہو گئے ہیں اور اب چھپ چھپا کر کوئی ڈیل نہیں ملنے والی تو انہوں نے پٹری بدل لی اور وہ بھی اس لئے کے وہ دیار غیرمیں اپنی آل اولاد اور مال و متاع کے ساتھ محفوظ بیٹھے تھے اور وہاں سے گولہ باری کرنا آسان تھا۔ جذبات میں وہ کئی سرخ لائنیں عبور کر گئے اور واپسی کا کوئی دروازہ یا کھڑکی کھلی نہیں چھوڑی۔ سب سے زیادہ مشکل میں اپنی ہی پارٹی کو ڈال دیا کے نہ وہ انکی تائید کر سکتی ہے اور نہ کھل کر تنقید۔ خبریں تو یہ بھی آ رہی ہیں کے چھپ کر کچھ ارسطو اور پارٹی کے آئن اسٹائن انہی لوگوں سے ملنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کو ان کے قائد گالیاں دے رہے ہیں، مطلب یہ ہوا کے ہر طرف صرف افرا تفری ہی ہے۔

پچھلے چند ہفتوں میں سب نے ملکر بہت زور لگایا مگر نتیجہ کیا نکلا۔ حزب اختلاف نے بڑی امیدوں کے ساتھ ایک کنبہ جوڑا۔ تین بڑی اور آٹھ چھوٹی پارٹیوں کو اکھٹا کیا تاکہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالا جائے کے وہ عمران خان کی حکومت کو ہٹا دے کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ خان تو دباؤ میں نہیں آئے گا سب کو معلوم تھا کہ وہ ایک فائٹر ہے اور جب کوئی تگڑا چیلنج سامنے آ جائے تو وہ اور سخت اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ بڑی بڑی میٹنگوں اور مشاورت کے بعد اور بڑے بڑے بجٹ، (جو زیادہ تر دو نمبر کا ہی ہو سکتا ہے )، جلسوں اور جلوسوں کے لئے رکھے گئے۔ سرکس گوجرانوالہ سے شروع ہوا، سارے لیڈر آ گئے اور 25 سے 30 ہزار لوگوں کو بھی ایک اسٹیڈیم میں جمع کر لیا گیا، سب نے تقریریں کیں اور میاں نواز شریف نے فوج اور اسکے سربراہ پر نام لیکر حملہ کیا تو ایک بڑی خبر بن گئی۔ حکومت نے وہ تقریر تو سب کو سنا دی لیکن اثر الٹا ہوا اور ان پر پابندی لگ گئی۔ دو دن بعد کراچی میں پی پی پی کا شو لگا اور میاں صاحب غائب ہو گئے مگر انکے داماد صاحب نے بانی پاکستان کے مزار پر ایک شو لگایا، انکو گرفتار کرنا ضروری تھا مگر سندھ کی پولیس نے ایسا نمک حلال کیا کہ ایک قومی بحران بن گیا فوج کو اپنے کمانڈر سے تفتیش کرانی پڑی، سندھ حکومت کو اپنی کمیٹی بنانی پڑی اور میڈیا نے سب کے پول کھول دیے، ویڈیو فوٹیج آ گئی اور سارا ڈرامہ ایک سازش نظر آنے لگا۔ تیسرا شو کوئٹہ میں لگا اور وہاں نورانی میاں کے بیٹے نے آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا کر سارے عیب چھپا دیے اور کسی نے نہیں پوچھا کتنے لوگ آئے، کون لایا اور نتیجہ کیا نکلا۔ نواز شریف نے ایک اور تقریر کر دی اور فوج کو گالیاں دے دیں مگر اپنے ہاتھ کی کچھ اور انگلیاں کاٹ لیں اور اب شاید انکی تقریر جلسے میں بھی نہ دکھائی جا سکے ٹی وی پر تو پہلے ہی بند ہے۔

میرے خیال میں تین جلسوں کے بعد حزب اختلاف اپنے سارے بھاری بھاری بم چلا چکی کیونکہ یہی تین پارٹیاں بڑی اور مضبوط تھیں اب باقی آٹھ پارٹیاں ہی رہ گئی ہیں اور انکا اثر کتنا ہوگا آپ خود ہی اندازہ کر لیں۔ تین بڑے جلسے کیسے رہے یہ ایک اہم سوال ہے پنجاب میں صرف نون لیگ کے لوگ نظر آئے اور وہ بھی لاکھوں میں نہیں۔ نواز شریف تو انتظار کر رہے ہونگے کہ 1986 میں بینظیر کی واپسی کا منظر ہوگا مگر وہاں تو کرسیاں بھرنا مشکل ہو گیا، کراچی میں پی پی پی اکیلی اس 11 پارٹیوں کے مخلوط جلسے سے بڑے جلسے کرتی رہی ہے اور کوئٹہ میں مولانا صاحب نے پورا زور لگایا مگر انکے مدرسوں کے بچوں کو اگر نکال دیں تو باقی عام عوام کتنی نظرآئی، یعنی ہر پارٹی نے اپنا زور دکھایا اور وہی لوگ آے جو وہ لا سکتے تھے کو مہنگائی اور پریشانی سے روتی چلاتی خلقت جلسوں میں نہیں آئی یہ کہتی ہوئی کہ عمران خان کو ہٹاؤ اور نواز یا زرداری یا مولانا کو بٹھاؤ تاکہ ہماری حالت ٹھیک ہو۔ الٹا ان جلسوں کا اثر یہ ہوا کہ وزیر اعظم کا لہجہ اور سخت ہو گیا، اعلیٰ عدلیہ نے وزیر اعظم کی تجویز مان لی اور حکم جاری کر دیا کے عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر کیس سنیں اور فوری فیصلے کریں۔ فوج نے تنگ آ کر حکم دیا کے انکے کمانڈرسندھ پولیس کی بغاوت کی تفتیش کریں۔ اب مریم نواز کے پیٹ میں درد شروع ہو گیا کے فوج کیوں بیچ میں آ رہی ہے۔ تین جلسوں کے بعد تین بحران پیدا کئے گئے اور کوئی مدد گار ثابت نہیں ہوا اور اب شکل یہ ہے کہ بلاول دور دور بھاگ رہے ہیں، لوگ عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ مہنگائی ختم کریں۔ نواز شریف بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ انکا میڈیا اور دباؤ بڑھائے اور تحریک اب پشاور میں اسفندیار اور آخر میں نون لیگ کے حوالے ہوگی کہ لاہور میں بڑا شو کریں۔ کیا امید کی جا سکتی ہے کے عمران خان کی طرح یہ پارٹیاں مینار پاکستان پر جلسہ کرینگی؟ مگرجتنا بڑا جلسہ کر لیں نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش۔ بات تو وہیں آ کر رکے گی جو شیخ رشید نے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ یہ لوگ جلسہ جلسہ کھیلیں گے اور اسکے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ عمران خان مارچ میں سینیٹ کے انتخاب میں جیتیں گے کیونکہ کوئی پارٹی ڈھائی سال پہلے استعفے دینے کو تیار نہیں ہوگی۔ بلاول نے تو کھل کر کہہ دیا کہ انکی پارٹی اسمبلیوں سے باہر نہیں جا سکتی تو مولانا کی ساری کوششوں پر پانی پھر گیا۔ ایک نتیجہ مگر سامنے آ ہی گیا اور وہ نواز شریف کا یہ فیصلہ کے وہ اب پاکستان واپس نہیں آئیں گے باہر سے ہی فوج کو گالیاں دیں گے جو انکی پارٹی کے لئے بڑی پریشانیاں کھڑی کریں گی یعنی ایک اور الطاف بھائی مگر اس بار پنجاب سے۔ عمران خان بھلے کہتے رہیں کہ وہ انکو واپس لے کر آیئں گے مگر یہ آسان نہیں ہوگا اور دیکھنا یہ ہوگا کہ نون لیگ پاکستان میں کتنی جان ہے اور کب تک وہ نواز شریف کی باتیں برداشت کر سکے گی۔

تو بات شروع ٹاک شو سے ہوئی تھی اور سب کا خیال یہ تھا کے ہمارا سسٹم بہت پرانا اور دقیانوسی ہے، چند خاندان پوری سیاست پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے ہیں اور کسی پارٹی میں جمہوریت سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہر پارٹی میں جمہوریت کے نام پر خاندانی آمریت اور اجارہ داری قائم ہے اور یہ خاندان اور لیڈر بالکل تیار نہیں کہ اپنی پارٹیوں میں جمہوریت لائیں یا بلدیاتی ادارے کھڑے کریں اور نچلی سطح کے انتخابات کرائیں۔

ٹاک شو میں یہ نکتہ بھی اٹھا کہ احتساب کا عمل اگر تیز کر دیا جائے جیسا کہ چیف جسٹس صاحب نے حکم دیا ہے اور عدالتیں اگر روزانہ کی بنیاد پر کیس سنیں اور جلدی جلدی فیصلے سنانا شروع کریں تو ہمارے بدبو دار سیاسی نظام سے گلی سڑی مچھلیوں کو نکال باہر کیا جائے اور باقی لوگوں کو شفاف طریقے سے سیاست کرنے دی جائے کیونکہ بنیادی طور پر سیاست عوام اور انسانیت کی خدمت کا ہی نام ہے۔ مگر ایساہوتا نظر نہیں آ رہا اور چیف جسٹس صاحب کو زیادہ کوشش کرنی پڑیگی کہ انکے حکم کی تعمیل ہو۔

بحث کے دوران اس بات پر اتفاق نظر آیا کے ہمارے سسٹم کے سافٹ ویر کو اپ ڈیٹ کرنے کی شدت سے ضرورت ہے مگر سوال وہی ہے کے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ ایک تجویز یہ آئی کہ ایک قومی ڈائیلاگ کرایا جائے اور میڈیا اپنا رول ادا کرے۔ میڈیا کوشش کر سکتا ہے مگر آجکل جس طرح کچھ بگڑے ہوئے لوگوں کے سوفٹ ویر اپ ڈیٹ ہو رہے ہیں تو یہ تو پورے ملک کے سسٹم کو ٹھیک کرنے کی بات ہے۔ یہ تو وہی کر سکتا ہے جسکے پاس طاقت ہو، ہمّت ہو، ایک قومی خدمت کرنے کا جذبہ ہو، وقت ہو، صبر اور برداشت ہو اور ملک کو درست سمت کی طرف لے جانے کی خواہش ہو اور سب سے زیادہ نیت صاف ہو۔ اتنی بہت سی خوبیاں ایک شخص یا ادارے میں کہاں، کب اور کیسے ملیں گی۔ کسی سوفٹ ویر اپ ڈیٹ کے لئے پورے سسٹم کو کم از کم ایک دفع پوری طرح بند کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تو پھر یہ کام سیاسی پارٹیاں اور لیڈر تو کرنے سے رہے پھر باقی دو بڑے ادارے ہی رہ جاتے ہیں۔۔ ایک عدلیہ اور اسکی مدد کے لئے فوج اور افسر شاہی۔ پھر ایک قومی ڈائیلاگ انہی اداروں اور ملک سے محبت کرنے والے صاف ستھرے پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے ورنہ تو کوئی امید نہیں کہ حالات کبھی بھی بہتر ہو سکیں گے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.