حسن وجمال اور رعنائی وشادابی کی تصویر وادی کشمیر جسے بھارتی تسلط و بربریت نے جہنم بنا دیا ہے جنت نظیر ہے۔
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
(اگر جنت کہیں ہوتی زمیں پر، یہیں ہوتی، یہیں ہوتی، یہیں پر)
سر زمین کشمیر میں طلوع اسلام کا سلسلہ 1800 میں اس وقت شروع ہوا جب مسلمان تاجروں نے اس خوبصورت خطے میں اپنی خوش اخلاقی اور دیانت داری کی اسلامی قدروں سے عوام و خواص کو غیر معمولی طور سے متاثرکیا۔
1295حضرت مشرف الدین عبدالرحمن تبت کے راستے اپنے سیکڑوں مریدوں کے ساتھ وادی کشمیر میں داخل ہوئے اور سری نگر میں ایک بہت بڑے اجتماع میں اپنے پرزور خطاب کے ذریعے دعوت اسلام دے کر سیکڑوں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ اس وقت کشمیر میں راجہ لچھمن دیو کا راج تھا۔
ایک طویل عرصے کے بعد راجہ رام چندر نے اقتدار سنبھالا لیکن اس کے ایک وزیر نے بغاوت کرکے اسے معزول کر دیا اور خود اقتدار پر قابض ہوگیا۔ بعد میں وہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنی اہلیہ و رفقا سمیت 1325 میں حضرت شرف الدین کے دست مبارک پر اسلام قبول کر کے صدر الدین کے نام سے موسوم ہوگیا۔ یوں وادی کشمیر پر تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اسلام کے آفاقی پیغام کی بدولت حکمرانی کا دور شروع ہوگیا جو مغل حکمران اکبر اور اس کے بعد افغان حکمران احمد شاہ ابدالی سے ہو کر گزرتا ہوا ایک گہری سازش کے نتیجے میں بالآخر ظالم وجابر اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے سکھ حکمران پر جاکر ختم ہوگیا۔
رنجیت سنگھ کے دور میں ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے پرچم حق و جہاد بلند کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ کشمیر میں 1339 سے لے کر 1818 تک اسلامی حکومت کا جگمگاتا ہوا پونے پانچ صدیوں پر محیط آفتاب بالآخر غروب ہوگیا۔
رنجیت سنگھ، کھڑک سنگھ، رانی چندر کور، شیر سنگھ اور دلیپ سنگھ نے 26 سال یعنی 1819 سے 1845 تک کشمیریوں کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا تاآنکہ فرنگیوں کا دور اقتدار آگیا اور سکھ حکمرانوں نے عبرت ناک شکست کھانے کے بعد تاوان کے طور پر 52 لاکھ روپے میں انگریز کو فروخت کر دیا۔
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
1853 میں گلاب سنگھ کی موت کے بعد اس کے بیٹے رنبیر سنگھ نے کشمیر کی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ پھر اس کا بیٹا پرتاب سنگھ حکمران بنا جس کے لاولد مرجانے کے بعد اس کے بھتیجے ہری سنگھ کو اقتدار مل گیا جو 1947 تک حکومت کرتا رہا۔ 13 جولائی 1931کو کشمیر کے حریت پسند مسلمانوں نے مسلم کانفرنس کے نام سے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی۔
1937 میں شیخ عبداللہ نے آزاد خیالی کا پرفریب نعرہ بلند کرکے نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھ دی جس کا مقصد کشمیری مسلم نوجوانوں کے دلوں اور دماغوں میں آزاد خیالی اور نیشنلسٹ نظریے کے جراثیم پھیلا کر انھیں گمراہ کرنا اور اپنا آلہ کار بنانا تھا۔ 24 مئی 1946کو اس کے ایک سرکردہ لیڈر بخشی غلام محمد نے غاصب بھارت کے کانگریسی رہنما و پردھان منتری اور کشمیری پنڈت جواہر لعل نہرو کو کشمیر کے دورے کی دعوت دی جو کشمیر پر بھارتی تسلط کا بہانہ اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کی راہ کا روڑہ بنی۔
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت اور تحریک آزادی میں نئی جان پڑ گئی اور انجام کار ہندوؤں اور حکومت ہندوستان کے آلہ کار ڈوگرہ حکمرانوں کی ہوا اکھڑ گئی۔ راجہ ہری سنگھ نے جموں میں جا کر پناہ لی۔ پھر وہ بدحواس ہوکر ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل کی مدد حاصل کرنے کی غرض سے دلی جا پہنچا اور اپنی بے بسی اور رسوائی کا قصہ رو رو کر انھیں سنایا جس کے بعد دونوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ طے پایا۔ نہرو نے راجہ کے ولی عہد کے طور پر اس کے بیٹے کرن سنگھ کو کشمیر کا حکمران تسلیم کر لیا۔
اس کے بعد نہرو نے الحاق کشمیر کا خفیہ معاہدہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ارسال کردیا جس کے ساتھ یہ درخواست بھی نتھی کردی کہ بغاوت کا سیلاب جموں و سری نگر سے ٹکرا رہا ہے اور سرحدی قبائل ریاست کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں، لہٰذا آپ اگر میری ریاست بچانا چاہتے ہیں تو فوراً مدد کریں۔ اس نام نہاد الحاق کو جواز بناکر اور شیخ عبداللہ کو ساتھ ملا کر نہرو نے کشمیر میں در اندازی کرتے ہوئے بھارتی فوج کشمیر میں داخل کر دی۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں قدم رکھتے ہی وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جو اب تک نہ صرف جاری ہے بلکہ انسانیت سوزی کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں بے حرمتی اور نسل کشی کی داستانیں سن کر سرحد کے آزاد قبائل کی غیرت جوش میں آگئی اور انھوں نے لشکر کشی کرکے بھارتی فوج کے پاؤں اکھاڑ دیے۔ بدحواس بھارت نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے سے فیصلہ کیا کہ بھارت مقبوضہ وادی سے اپنی فوجیں واپس بلا کر اندرونی معاملات اہل کشمیر کے حوالے کر دے۔
تاہم وادی کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانب دارانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے اور تب تک جو علاقے بھارت کے قبضے میں ہیں وہ بھارت کے پاس رہیں اور جو علاقہ (آزاد کشمیر) پاکستان کے قبضے میں ہے وہ پاکستان کے کنٹرول میں رہے۔
لیکن بھارت شروع دن سے لے کر آج تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مذکورہ قرارداد سے نہ صرف روگردانی کر رہا ہے بلکہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارت کی موجودہ حکومت نے 5 اگست کی غیر آئینی کارروائی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے مقبوضہ وادی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے اور اب الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی کہاوت کے مصداق آزاد کشمیر پر بھی اپنا دعویٰ جتا رہا ہے۔ اگر پاکستان اس کے ٹکر کی ایٹمی قوت نہ ہوتا تو بھارت نہ صرف لقمہ تر کی طرح نہ صرف آزاد کشمیر کو نگل چکا ہوتا بلکہ خدانخواستہ پاکستان کو بھی ہڑپ کرچکا ہوتا۔
ایک دن بعد جب پاکستانی قوم بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ منائے گی تو آزادی کشمیر کی اہمیت دوبالا ہوجائے گی کیونکہ انھوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔
بھارتی غاصبوں سے ہمارا سب سے پہلا اور منطقی سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کو کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار داد تسلیم نہ تھی تو 1948 سے لے کر 1960 تک بھارت نے یہ صدا کیوں لگائی کہ کشمیری جب چاہیں بھارت سے الگ ہوسکتے ہیں؟ بھارت سے ہمارا دوسرا سوال یہ ہے کہ اس نے کشمیر میں استصواب کا اپنا وعدہ کیوں نہیں نبھایا؟ بھارتی حکمرانوں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر تمہارے بقول اہل کشمیر تمہارے ساتھ الحاق کے لیے مرے جا رہے تھے تو پھر تم نے مقبوضہ وادی میں اپنی فوج کیوں داخل کی؟ بھارتی غاصبوں سے ایک اور سوال یہ ہے کہ سری نگر سے بارہ مولا تک لاکھوں افراد "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے کیوں لگا رہے ہیں؟ بھارتی غاصب درندوں سے ہمارا آخری سوال یہ ہے کہ انھوں نے کشمیریوں پر عرصہ حیات کیوں تنگ کر رکھا ہے اور باقی دنیا کے ساتھ ان کا رابطہ کیوں منقطع کیا ہے؟
مودی سرکار کے 5 اگست کے اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر کے حالات ایک نئی کروٹ لے چکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو اب نئے چیلنج درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اب ایک نئی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی۔ اولین تقاضا یہ ہے کہ ملک میں اندرونی استحکام ہو اور قوم پوری طرح یک جہت اور متحد ہو۔ دوسرا یہ کہ ملک اقتصادی اعتبار سے مستحکم اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو کیونکہ:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
چوں کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات سے بے خبر رکھنے کی غرض سے مکمل بلیک آؤٹ کر رکھا ہے۔ اس لیے پاکستان کو دنیا بھر کے لوگوں اور ملکوں کو زمینی حقائق سے باخبر رکھنے کے لیے ایک مسلسل اور زور دار میڈیا مہم چلانی ہوگی۔
جس کے لیے نہ صرف ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بلکہ ہمارے سفارت خانوں کو انتہائی فعال کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو جائے اور سب کو معلوم ہوجائے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنے شکنجے میں جکڑے رکھنے کے لیے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و ستم کے کتنے زبردست پہاڑ ڈھا رہا ہے اور ان کی نسل کشی کے لیے کیسے انسانیت سوز حربے استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو اس خطرے سے بھی آگاہ کرانا ہوگا کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر بھارت کو موثر انداز میں روکا اور ٹوکا نہ گیا تو بھارتی جبر و استبداد کا آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دونوں ایٹمی قوتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان خوفناک جنگ چھڑ سکتی ہے جس کے اثرات سے دنیا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
مقبوضہ کشمیر کے سنگین حالات آغا شورش کاشمیری کے ان اشعار کی صورت میں وقت کی پکار بن گئے ہیں :
بھارت ترے سینے میں سناں گاڑ چکا ہے
طوفان بپا ہے
یہ حشر کا منظر ہے کہ ہے شوخی تحریر
اے وادی کشمیر
اولاد شمر تیرا چمن لوٹ رہی ہے
افتاد کڑی ہے
اب وقت ہے لا حیدر کرار کی شمشیر
اے وادی کشمیر