بجٹ خواہ گھریلو ہو، کاروباری ہو یا سرکاری، آمدنی اور خرچ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایک ہندی کہاوت یاد آ رہی ہے جو کچھ یوں ہے:
تے تے پَیر پسارئیے
جیتی لامبی سَور
مطلب یہ کہ پیر اتنے ہی پھیلائے جائیں جتنی لمبی چادر ہو۔ بجٹ آیندہ کے جمع خرچ کا ایک تخمینہ ہوتا ہے۔ اس وقت جب یہ کالم سپرد قلم کیا جا رہا ہے وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2021 اور 2022 کی تیاریاں زور و شور کے ساتھ جاری ہیں اور اس کالم کی اشاعت کے 3 دن بعد یہ بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کی توقع ہے چونکہ ملکی نظام کو چلانے کی تمام تر ذمے داری وزارت خزانہ پر ہوتی ہے۔
اس لیے اس وزارت کو دیگر تمام وزارتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ زندگی کا کاروبار چلانے کے لیے روپیہ پیسہ درکار ہوتا ہے اس طرح حکومت کا کاروبار چلانے کے لیے بھی وزارت خزانہ کو خصوصی اہمیت حاسل ہے چنانچہ وزارت خزانہ کی سربراہی کے لیے وزیر باتدبیر کا انتخاب خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ وطن عزیز میں موجودہ برسر اقتدار سیاسی جماعت کے دور میں اب تک کئی وزرا خزانہ تبدیل ہوچکے ہیں جن میں موجودہ وزیر خزانہ کا نمبر چوتھا ہے۔ امید ہے کہ ان کی تقرری پائیدار ثابت ہوگی۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا یہ آیندہ بجٹ تیسرا ہوگا۔ اس حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے ڈھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے جوکہ پوری مدت کا نصف حصہ ہے۔ لہٰذا توقع کی جاتی ہے کہ یہ بجٹ گزشتہ بجٹ کے مقابلے میں بہتر ہوگا۔
پچھلے بجٹ میں بہت ساری خامیاں تھیں جن کا جواز یہ تھا کہ حکومت نئی نئی ہے اور اسے قدم سنبھالے ہوئے خاصا عرصہ گزر چکا ہے اس لیے اگلے سال کا بجٹ پیش کرنے میں پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک افراط زر کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جوکہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف غریب کی زندگی اجیرن کردی ہے بلکہ متوسط طبقے کی کمر بھی توڑ ڈالی ہے۔ اشیا ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور عوام کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
قیمتوں میں یہ اضافہ مہینوں میں نہیں بلکہ ہر ہفتے اور ہر روز کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ بے چارے سرکاری ملازمین کا ہے جو مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ ان پر سب سے بڑا ظلم یہ ڈھایا گیا کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں ان کی تنخواہوں اور پنشنرز میں ایک دمڑی کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ان بے چاروں کی حالت یہ ہوئی کہ بقول شاعر:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
ستم تو یہ ہے کہ یہ زیادتی اس پارٹی کے دور حکمرانی میں ہوئی جو انصاف کی نام لیوا ہے اور تحریک انصاف کہلاتی ہے اور جو جمہوریت کے علم بردار ہیں۔ ایسی ستم ظریفی تو آمریت کے دور میں بھی نہیں ہوئی۔ کیسا کھلا تضاد ہے ایک طرف تو ریاست مدینہ کی باتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب بے بس اور بے کس لوگوں کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ مدینے کی ریاست کا طرۂ امتیاز تو یہ تھا کہ کسی کے ساتھ بے انصافی نہ ہو۔ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کے دور خلافت کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی کُتّا بھی رات کو بھوکا سو جائے تو خلیفہ نے خود کو اس کا ذمے دار قرار دیا۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جب سے موجودہ حکمرانوں نے اقتدار سنبھالا ہے مہنگائی کا سونامی تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ افراط زر نے ایک قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے۔ عام آدمی اور بالخصوص سرکاری ملازمین بری طرح پریشان ہیں۔ اشیا ضرورت کی قیمتوں کو پَر لگ گئے ہیں کہ اڑی چلی جا رہی ہیں۔ اس کے برعکس ملازمین کی تنخواہوں میں پھوٹی کوڑی کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ سب سے برا حال ریٹائرڈ ملازمین کا ہے جن کی کوئی آواز ہی نہیں ہے۔ جوں جوں ان کی عمر بڑھتی جا رہی ہے ان کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صحت جواب دے رہی ہے اور آمدنی میں اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جب کہ علاج معالجے کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔
شنید ہے کہ آیندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے معاوضوں میں دس فیصد کی شرح سے اضافہ کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سراسر زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔ حاتم طائی کی قبر پر اس طرح لات مارنے کے نتیجے میں متاثرہ لوگوں میں بے چینی اور بد دلی پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ یہ بات بھی بعیداز قیاس نہیں کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق انھیں احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور ہونا پڑے۔
صرف یہی حکومت نہیں بلکہ ماضی کی بیشتر حکومتوں کا رویہ بھی سرکاری ملازمین کے حوالے سے ہمدردانہ نہیں رہا جس میں پنشنرز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حکومت کے نزدیک انھیں لاوارث اور خزانے پر ایک بوجھ سمجھا گیا ہے۔ تنخواہیں اور پنشن کوئی خیرات یا صدقہ نہیں بلکہ یہ ان کا قانونی اور اخلاقی جائز حق ہے۔
یہ ان کی محنت اور مشقت کا معاوضہ ہے جو انھیں پابندی کے ساتھ بلاتاخیر ملنا چاہیے اور اس کی شرح گرانی میں اضافے کی شرح کے مطابق ہونا چاہیے۔ انصاف کے اس تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی کے ایک نہایت منصف مزاج اور عالمی عالمی شہرت یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق (مرحوم) پاکستان کے سابق وزیر خزانہ نے تنخواہوں اور پنشن کے حوالے سے پرائس انڈیکس کا نظام متعارف کرایا تھا جو معاشی انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔
اس نظام کے تحت تنخواہوں اور پنشن کے اضافے کو اشیا ضرورت کی قیمتوں میں کمی و بیشی کے حساب سے مقرر کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب کے وزارت خزانہ کے عہدے سے فارغ ہوتے ہی ختم کردیا گیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن اور محنت کشوں کے معاوضوں میں جو اضافہ بھٹو دور میں ہوا، وہ نہ کبھی اس سے پہلے ہوا تھا اور نہ اس کے بعد ہوا۔
مہنگائی کے مارے ہوئے عوام کو آیندہ بجٹ سے ریلیف ملنے کی توقعات وابستہ ہیں خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو اس کے نتائج بہت خوفناک ہوں گے۔ حکومت وقت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مایوس عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے اور ان کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے۔