فلسطین اور مقبوضہ کشمیر دونوں وہ رستے ہوئے ناسور ہیں جنھوں نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایک جانب اسرائیل ہے اور دوسری جانب بھارت ہے یہ دونوں ممالک ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ دونوں ہی توسیع پسندی کے جنون میں مبتلا ہیں۔
بھارت اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے اور اسرائیل گریٹر اسرائیل کا۔ ایک نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے تو دوسرا مظلوم کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ یہود اور ہنود کے اس گٹھ جوڑ نے عالمی امن کے لیے شدید خطرات پیدا کر رکھے ہیں۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر دونوں ہی جگہ پر قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے لیکن اقوام متحدہ کا ادارہ چپ سادھے ہوئے محض خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر دونوں جگہ مسلمانوں کے خون کی ارزانی ہے۔ مائیں بے اولاد ہو رہی ہیں، بیویاں اپنے شوہروں سے محروم ہو کر بیوائیں ہو رہی ہیں اور بہنیں اپنے پیارے بھائیوں سے بچھڑ رہی ہیں، جب کہ معصوم بچے اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو رہے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر دونوں کے پس پشت فرنگیوں کا ہاتھ ہے۔ اسرائیل برطانوی سامراج کی پیدا کی ہوئی ناجائز اولاد ہے تو مسئلہ کشمیر اس کی بندر بانٹ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے بے خوف و خطر ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے نہایت جرأت مندی کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ اس کے بعد ترکی اور ایران کا نمبر آتا ہے۔ دوسری جانب بھارت ہے کہ جو اسرائیل کا پٹھو ہے لیکن اس کے باوجود مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رکھتے ہوئے اپنے کاروباری مفادات کو فروغ دے رہا ہے گویا:
یزید سے بھی مراسم حسین کو بھی سلام
دوسری جانب مسلم ممالک کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وہ محض اپنے مفاد کی خاطر اپنے برادر ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقابلے میں اس بھارت کو ترجیح دے رہے ہیں جو ناصرف مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان بھائیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے بلکہ جس نے بھارتی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ 57مسلم ممالک پر مشتمل او آئی سی بھی اس سنگین صورتحال کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جب کبھی کسی مسلم ملک کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس تنظیم کا اجلاس طلب ہوتا ہے جس میں محض قراردادیں منظور کرنے کے علاوہ زبانی جمع خرچ کے سوا عملاً کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے اسلام مخالف قوتیں اس تنظیم کو خاطر میں نہیں لاتیں اور اس کی آواز کو سنی ان سنی سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ گستاخی معاف! اسلامی ممالک کی اس تنظیم کی حیثیت قالین کے شیر سے زیادہ نہیں۔ فلسطین کے خلاف حالیہ اسرائیلی جارحیت کوئی نئی یا انوکھی واردات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل اس جرم کا مرتکب بہت مرتبہ ہو چکا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ وہ مغربی ممالک ہیں جو یہودیوں کے سب سے بڑے حمایتی ہیں جو اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کی آپس کی نااتفاقی اسرائیل کی دیدہ دلیری کا سب سے بڑا سبب ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی حالیہ بربریت نے درندوں کو بھی مات کردیا جس کے نتیجے میں خاصی بڑی تعداد میں نہتے فلسطینیوں کی قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں۔
ان میں نوجوانوں کے علاوہ بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ غزہ پر اسرائیل کے انتہائی شدید فضائی حملے میں وہ عمارت بھی ملبے کا ڈھیر ہوگئی جس میں دنیا کے مشہور و معروف میڈیا ہاؤسز بھی شامل تھے چنانچہ اسرائیل کو اس مرتبہ فلسطین پر اپنے حملے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔
ردعمل کے طور پر عالمی میڈیا نے جو اس سے پہلے اسرائیلی جارحیت کے خلاف گونگا بنا رہتا تھا چراغ پا ہو گیا اور اس نے اس اسرائیل کی ننگی جارحیت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا چنانچہ اس مرتبہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیشتر مغربی ممالک میں پرزور احتجاج اور زبردست مظاہرے ہوئے جن میں برطانیہ کے علاوہ امریکا اور فرانس بھی شامل ہیں۔
پاکستان اور ترکی فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف پیش پیش تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، ترکی کے صدر اردگان اور ملائیشیا کے سابق مقبول رہنما 94 سالہ مہاتیر محمد نے انتہائی پرزور الفاظ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ روز اول سے ہی اسرائیلی جارحیت اور توسیع پسندی کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں آواز حق بلند کرتا رہا ہے۔
حالانکہ فلسطین نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حق میں پاکستان کے ساتھ ہم آواز ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یہ پاکستان ہی ہے جو پوری دنیا میں مظلوموں کے حق میں ہمیشہ صدائے احتجاج بلند کرتا رہتا ہے۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سعودی سربراہ شاہ فیصل شہید اور پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون کو جو فروغ حاصل ہوا اور دونوں ممالک کے باہمی رشتے جس قدر مضبوط ہوئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ شہر اقبال لاہور میں منعقدہ عظیم الشان اور فقید المثال اسلامی سربراہی کانفرنس تاریخی سربراہی کانفرنس اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسلام آباد کی شاندار شاہ فیصل مسجد اس سنہری دور کی انتہائی خوبصورت علامت ہے۔
تاریخ کے اس سنہری دور کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سعودی عرب کے علاوہ خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی انتہائی قریبی برادرانہ تعلقات کا قیام اور عروج بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان تعلقات کی نوعیت ایسی تھی کہ متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔
اس کے نتیجے میں ناصرف پاکستان میں بڑے پیمانے پر متحدہ عرب امارات کی ریکارڈ سرمایہ کاری ہوئی بلکہ پاکستانی افرادی قوت کو اس ریاست میں روزگار کے بے شمار مواقع بھی میسر آئے۔ کاش! اسلامی ممالک یہود و ہنود کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح متحد ہو جائیں اور علامہ اقبال کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر