افغانستان میں حق کا بول بالا ہُوا اور باطل کا منہ کالا ہُوا۔ اللہ کے شیروں کو فتح مبین حاصل ہوئی اور امریکی گیدڑوں کو دُم دُبا کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکا کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی اس کے علاوہ امریکا کا دیوالیہ بھی نکل گیا۔ غرورکا سر نیچا ہوگیا اللہ تعالیٰ کی سُپر پاور کے آگے امریکا کی سپر پاورکو شکست ِ فاش ہوئی اور دنیا پر ثابت ہوگیا کہ حقیقی حاکمیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔
وہی سُپر پاور ہے، امریکا کو نوشتہ دیوار پڑھنے میں بہت دیر ہوگئی۔ کاش اُس نے ویتنام کی شکست سے کوئی سبق حاصل کیا ہوتا یا پھر افغان مجاہدین کے ہاتھوں میں بھاری مالی نقصان اُٹھانے کے علاوہ ناقابل ِتلافی جانی نقصان بھی اُٹھایا جس کا اعتراف امریکا کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے نہ صرف امریکی عوام کے علاوہ دنیا بھر کے سامنے برملا کیا ہے۔ افغانستان میں امریکا اورنیٹو کی شکست فاش دنیاکی ظالم اورجابر قوتوں کے لیے ایک سبق اور مثال ہے کہ
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں
بقول ساحرؔ:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
افغان مجاہدین نے امریکا، روس اور اس سے قبل برطانوی سامراج کو شکست دے کر ایک بار پھر دنیا کو دکھا دیا کہ دشمن خواہ کتنا بھی طاقتورکیوں نہ ہو وہ اُن پر حاوی نہیں ہوسکتا اور یہ ہے کہ:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا
افغان مجاہدین کی یہ دوسری اور شاندار فتح ہے جس کا بھر پور جشن منا یا جا رہا ہے افغان مجاہدین نے دوسرے نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔ افغان طالبان نے اپنے سابقہ دورِ حکمرانی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے اور اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھائیں گے۔ مثلا خواتین کے معاملے میں شرعی احکامات کی پابندی کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں کو بھی پیشِ نظر رکھیں گے اور کٹرپن کا مظاہرہ نہیں کریں گے اگر وہ ایسا کریں گے تو دنیا کے اکثر ممالک کی حمایت اور مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دوسری صورت میں انھیں نہ صرف اس سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ اُن کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں بھی حائل ہونگی۔ سو بیس سالہ طویل خانہ جنگی نے افغانستان کی معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور ہر طرف تباہی وبربادی کے سوائے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اس لیے وہاں امن و امان کا مستقل قیام نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر تعمیر نو کا کام نہیں ہوسکتاکیونکہ یہ ایک بہت بڑا پہاڑ ہے جس کے لیے ہمدردممالک کا تعاون ناگزیرہے۔ ابھی افغانستان کی صورت حال لمحہ با لمحہ بدل رہی ہے اور بر سرِاقتدار آنے والی نئی افغان حکومت کو نت نئی مشکلوں کا سامنا در پیش ہے۔ بقول منیرؔ نیازی:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
یہ امر اُمید افزاہے کہ طالبان قیادت نے اب تک اعتدال کامظاہرہ کیا ہے جس سے عالمی برادری میں اُس کا امیج بہترہوتادکھائی دے رہا ہے۔ یہ ایک اچھا شگون ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جرمنی نے نئی افغان حکومت کو تعاون فراہم کرنے کا مشروط عندیہ دیا ہے۔ دیگرممالک سے بھی ایسی ہی توقعات وابستہ ہیں چین کی جانب سے تو بالکل واضح مکمل حمایت کا اعلان کیا جا چکا ہے جب کہ روس کی جانب سے بھی نہایت مثبت حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اُس کا تعاون بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بھاری بوجھ اُٹھا کر اپنے عمل کے ذریعے اپنا کردار بہت پہلے ثابت کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر اسلامی ممالک نئی افغان حکومت کے ساتھ کس قدر برادرانہ تعاون کرتے ہیں۔
افغانستان میں پٹھو حکومت کے خاتمے سے پاکستان کو فوری فائدہ ہوا ہے اور دوسری جانب بھارت کی تو گویا میّا ہی مرگئی ہے کیونکہ اب وہاں اُس کے پاکستان مخالف سازشی ٹھکانوں کا مکمل صفایا ہوگیا ہے اور اُس کے سازشی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ اس وقت بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ طالبان کے خوف سے بھارتی حکومت حیران و پریشان ہے کیونکہ اس کے تمام ارمانوں پر اوس پڑ گئی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اب تک اپنے رویے اور محتاط طرزِ عمل سے ثابت کردیا ہے کہ نئی حکومت نہایت اعتدال اورحکمت کا مظاہر ہ کر ے گی۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اُسے طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑیگا۔
امریکا نے افغانستان پر دو مقاصد سے چڑھائی کی تھی اس کا پہلا مقصد اپنی قوت کا مظاہرہ کر کے دوسروں کو دھمکانا اور ڈرانا تھا تاکہ اس کی دھاک بیٹھ جائے اور وہ اپنا الّو سیدھا کرتا رہے۔ اس کا دوسرا اور اصل مقصد افغانستان کی معدنی دولت کو لوٹنا تھا۔ یہ اُسی طرح کا معاملہ تھا جیسا برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھ کر کیا تھا، گویا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔
افغانستان میں امریکا کی بُری طرح ناکامی نے اس خطے کی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ افغان طالبان کی فتح نے مقبوضہ کشمیر کی تحریک ِآزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور مظلوم کشمیری برادرانِ اسلام کے حوصلے بلند کر دیے ہیں۔ اب مظلوم کشمیریوں کی توقعات کو بہت تقویت حاصل ہوگئی ہے اور انھیں اپنی منزل قریب تر ہوتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب غاصب اور جابِر بھارت کو نوشتہ دیوار نظر آنے لگا ہے اور اس کے حوصلے پست ہوگئے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں پر ایک خوف طاری ہے اور وہ بُری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں۔
انھیں اپنا آخری انجام دکھائی دے رہا ہے اورلرزہ براندام ہیں۔ اس صورتحال سے(مرحوم) کشمیری رہنماء سید علی گیلانی کی روح یقیناً خوش ہو رہی ہوگی۔ فتحِ کابل نے وقت کے دھارے کوایک نئی سمت میں موڑ دیا ہے، وہ وقت دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر بھارت کے چُنگل سے آزاد ہوجائے گا اور اس خطے کا نقشہ ہی بدل جائے گا اور کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ حقیقت میں تبدیل ہوجائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کیا روش اختیار کرتا ہے اور کشمیری کس قدر ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہیں۔ فتحِ کابل کے بعد بھارت نے ایک اور چال چلی ہے اور افغان طالبان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ گویا نیا جال لائے پرانے شکاری مگر ہمیں اُمید ہے کہ یہ بیل اب کسی بھی صورت منڈھے نہیں چڑھے گی اور چارو ناچار بھارتی قیادت کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ یہ بات تو طے ہے کہ افغانستان میں امریکا کی پسپائی نے اور چین کی پوزیشن مزید مستحکم ہونے سے بھارت کی بالا دستی کے تمام منصوبے ناکام ہوگئے ہیں اور خواب چکناچور ہو گئے ہیں۔
اس نئی صورت حال میں ایک اور اشارہ بھی پنہاں ہے جس کا تعلق وطنِ عزیز سے ہے جو اسلام کے نام پرمعرض ِ وجود میں آیا تھا لیکن تاحال اسلامی شریعت کے نفاذ سے محروم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امارتِ اسلامی کے افغانستان میں قیام اور شریعت کے نظام کے نفاذ سے وطنِ عزیز پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا تیل دیکھیے اور تیل کی دھار دیکھیے۔