یوں تو نظم اور نثر دونوں کو شعر و ادب میں اپنا اپنا مقام حاصل ہے لیکن شاعری کو نثر پر فوقیت اور سبقت حاصل ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اختصار اور جامعیت شاعری کا طرّہ امتیاز ہے۔ جس بات کو شعر کے دو مصروں میں بیان کیا جاسکتا ہے اسے نثر میں بیان کرنے کے لیے بہت سی سطریں تحریر کرنا پڑتی ہیں اور پھر بھی وہ بات پیدا نہیں ہوتی جو شعر کا خاصہ ہے۔
بات وہی ہوتی ہے لیکن شاعری کے سانچے میں ڈھل کر اسے چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اردو غزل کے دو مصرعوں اور ہندی دوہے کی دو پنکتیوں میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے مثال کے طور پر غالبؔ کا درجہ ذیل شعر اور بھگت کبیرؔ کا یہ دوہا ملاحظہ فرمائیں:
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کے غالبؔ میرے اشعار میں آئے
………
چلتی چاکی دیکھ کے دیا کبیرہ روئے
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کوئے
صاف ظاہر ہے کہ غالبؔ اور کبیرؔ نے دو مصرعوں میں دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ اسے کہتے ہیں گاگر میں ساگر اور یہی ہے شاعری کا کمال۔ کہاوتوں اور محاوروں کا کمال بھی کم و بیش ایسا ہی ہے۔ مثال کے طور پر فارسی کی ایک کہاوت:
اگر پِدر نہ توانَد پِسر تمام کند اور اب ملاحظہ فرمائیں کہ درجہ ذیل کہاوت میں اسی مفہوم کو کس خوبصورتی سے ادا کیا گیا ہے۔
باپ پر پوت پتا پر گھوڑا
بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا
یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ باپ کو فارسی میں پِدر اور ہندی میں پتا کہتے ہیں۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ باپ کے کچھ نہ کچھ اثرات بیٹے میں اکثر منتقل ہو جاتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سائیں فقیر محمد سومرو کے اثرات ان کے صاحبزادے محمد عارف سومرو میں نہ صرف منتقل ہوگئے ہیں بلکہ اِن میں اپنے والد کی بہ نسبت زیادہ شدت اور تیزی کے ساتھ سرائیت کر رہے ہیں، جس کے بارے میں دِلی کی ٹکسالی زبان میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ
"کٹورے میں کٹورا
بیٹا باپ سے بھی گورا"
سچ پوچھیے تو پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آگئے تھے اور یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ لڑکا بڑا ہونہار ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ حاجی فقیر محمد سومرو کا تعلق خیرپور سندھ کے ایک علمی گھرانے سے ہے اور ان کے والد بزرگوار مولوی اللّہ بخش سومرو (مرحوم) نامور عالم دین اور اپنے علاقے کے ناظم صلوٰۃ تھے۔ حاجی فقیر محمد سومرو کئی کتابوں کے مصنف ہیں، حال ہی میں ان کی تحقیقی کتاب خفتگان جنت البقیع شایع ہوئی ہے۔ تایا پروفیسر (ر) میر محمد سومرو (مرحوم) مفسرِ قرآن، مورخ اور شاعر تھے۔ اِس کے علاوہ اِن کے چچا نصیر سومرو بھی سندھی اور اردو کے شاعر ہیں۔
چالیس سالہ محمد عارف سومرو کو اگر بزرگ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ ان کو بزرگی کا پیمانہ عمر نہیں بلکہ علم و دانش ہے۔ فارسی کی یہ کہاوت تو آپ نے ضرور سنی ہوگی کہ "بزرگی بہ عقل است نہ کہ بہسال"۔ محمد عارف سومرو تحریر و تحقیق سے وابستہ ابھرتے ہوئے نوجوان ادیب ہیں۔ مضمون نگاری ان کا خاص شعبہ ہے۔ انھوں نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ بی اے اور پھر ایم اے بین (الاقوامی تعلقات) کی سند شاہ عبد اللطیف یونیورسٹی، خیرپور سے فرسٹ ڈویژن میں حاصل کی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک سالہ ڈپلومہ کراچی سے حاصل کیا۔ انکا یہ ذوق و شوق ہمارے اِس شعری اظہاریہ کے مصداق ہے:
کون کہتا ہے میں نہیں پیتا
بے دھڑک بے حساب پیتا ہوں
علم نوشی کی لَت پرانی ہے
میں شرابِ کتاب پیتا ہوں
ان کی لائبریری میں مختلف موضوعات سے متعلق1500سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ یہ دار آل مطالعہ نہیں بلکہ مہ خانہ علم ہے جہاں بیٹھ کر وہ علم نوشی سے شغل فرماتے ہیں۔ عارف سومرو نے لکھنے کی ابتدا کالم نگاری سے کی۔
پہلی تحریر روزنامہ جرات کے ادارتی صفحہ میں شایع ہوئی۔ اس کے بعد روزنامہ نوائے وقت میں لکھنا شروع کیا۔ انھوں نے معروف اخبار وادی مہران کے صفحے کے لیے سندھ کے صوفیا کرام، ادیبوں اور شعراء پر بہت سے مضامین تحریر کیے جو ان کی ادبی پہچان کا باعث بنے۔ کچھ تحریریں دہلی اور حیدرآباد دکن کے اخبارات میں بھی شایع ہوئیں۔
عارف سومرو کا اردو وکی پیڈیا سے تعلق 2015 میں قائم ہوا۔ عارف سومرو اب تک اردو وکی پیڈیا پر 837 مضامین تحریر کر چکے ہیں۔ عارف سومرو ایک اچھے کوئز ماسٹر بھی ہیں۔ انھوں نے آرٹس کونسل آف کراچی میں منعقدہ آئی ایم کراچی یوتھ فیسٹیول 2014ء کے کوئز مقابلہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی، سرٹیفکیٹ، نقد انعام اور شیلڈ کے حقدار ٹھہرے۔ 2018میں انھیں پاکستان کوئز سوسائٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ایکسی لینس ایوارڈ دیا گیا۔ دسمبر 2019ء کو پاکستان رینجرز (سندھ) نے انھیں گولڈ میڈل سے نوازا۔ یہ گولڈ میڈل جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے انھیں دیا۔ 2019۔ 2020 میں ایک میڈیا گروپ کی جانب سے اسکولوں کے طالب علموں کے درمیان ملک گیر کوئز مقابلہ " ہونہار پاکستان" کے نام سے منعقد کیا۔ اس مقابلے کے لیے سوالات بنانے والی ٹیم میں شامل ہونے کی بنا پر عارف سومرو کو جنگ میڈیا گروپ کی جانب سے شیلڈ سے نوازا گیا۔
عارف سومرو ایک معروف نیم سرکاری ادارے میں اپنے فرائضِ منصبی انتہائی احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں قلم کاروں کے لیے کوئی ذریعہ معاش موجود نہیں ہوتا۔ بقولِ حسرتؔ موہانی:
ہے مشقِ سخن جاری
چکّی کی مشقّت بھی