اللہ بخشے ہمارے سسر(مرحوم) ٹھیٹ دلّی والے تھے اور دلّی کی زبان ان کے منہ سے بڑی اچھی لگتی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میاں جیسی شکلـع، کی ویسی ہی شکل غ، کی، بس نقطے کا فرق ہے۔ تو یہ بات کرکٹ پر بھی صادق آ رہی ہے وہ یوں کہ اگر کرکٹ کے ـک، پر مرکز لگا دیا جائے تو پھر گرگٹ بن جائے گا۔ کرکٹ جو کبھی محض ایک کھیل ہوا کرتا تھا رنگ بدلتے بدلتے اب ایک انڈسٹری بن گیا ہے اور اسی طرح یہ خیال بھی بدل گیا ہے کہ:
ـپڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب
کھیلو گے کودو گے تو ہو گے خراب
بھلا ہو کیری پیکر کا کہ اس نے کرکٹ کے کھیل کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اب یہ کھیل کے بجائے نوٹ چھاپنے کی مشین بن گیا ہے۔ اور کھلاڑی نواب ہو گئے ہیں۔ کھلاڑیوں کے لیے دولت و شہرت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ گویا ایک ٹکٹ میں دو شو، بہرحال بات وقت وقت کی ہے پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں کے لیے یہ بات نہایت خوش آیند ہے کہ پی۔ سی۔ بی۔ (PCB)کے نئے چیئرمین رمیز راجہ نے منتخب کھلاڑیوں کی Retainership (معاوضہ) میں پورے ایک لاکھ روپے کا خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے جس میں کھلاڑیوں کے قالب میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور ان کے حوصلے بلند سے بلند تر ہوگئے ہیں۔
یہ انقلابی قدم ٹھیک ایسے وقت پر اُٹھایا گیاہے جب کہ کرکٹ ورلڈکپ (Cricket World Cup) کا انعقاد قریب ہے۔ کرکٹ کے کھیل سے وطنِ عزیز کا نام پوری دنیا میں روشن ہوا ہے اور اس سے بڑھ کر اور بھلا کیا ہو گا کہ آج ایک کرکٹر ہمارے ملک کا وزیر اعظم ہے۔ پاکستانی کرکٹ کا قبلہ دُرست کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ اور یہ بات خوش کُن ہے کہ عمران خان نے یہ کام سر انجام دے دیا ہے۔
دیر آید درست آید قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ غالباََ رمیز راجہ پانچویں کھلاڑی ہیں جنھیں چیئرمین کے منصب پر فائزکیا گیاہے۔ اس سے پہلے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ یہ منصب کسی بھی غیر کھلاڑی شخصیت کو پسند کی بنیاد پر سونپا جایا کرتا تھا۔ رمیز راجہ کی اس منصب پر تقرری یقیناایک انقلابی اقدام ہے جسے جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہو گا۔
اسے Right Man on The Right Job کہنا بالکل بجا ہوگا۔ کاش دوسرے شعبوں میں بھی یہی روش اختیار کی جائے تاکہ ملک میں میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کی جائیں اور ملک ترقی کر سکے۔ ہم رمیز راجہ کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی سلیکشن کو بالکل درست ثابت کر کے دکھائیں گے اور پاکستانی کرکٹ کی کایا پلٹ دے گے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ کام بہت مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں:
مشکلے نیس کہ آساں نہ شَود
مرد باید کہ ہراساں نہ شَود
اس کارِ دشوار کے لیے وقت، ہمت اور دیانتداری بھی درکارہے۔ رمیز راجہ کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش اور امتحان ہے۔
فارسی زبان کی کہاوت ہے:
ہر کہ آمد عمارت ِ نوساز مطلب یہ کہ ہر نیا آنے والا اپنی سمجھ کے مطابق نئی عمارت تعمیر کرتاہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے دشمن کرکٹ کے میدان میں بھی مکروہ سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ جس کا اندازہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی واپسی اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دورے سے انکار سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ اس سازش کے پسِ پشت چھپا ہوا چہرہ بھی اب بالکل بے نقاب ہوچکا ہے۔
رمیز راجہ اور عمران خان کی کرکٹ کہانی میں بڑی گہری مُماثلت ہے بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ ایک کہانی کا کلیدی کردار بڑے بھائی وسیم حسن راجہ کا ہے اور دوسری کہانی کا اصل کردار ہے کزن ماجد خان۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں ہی کے معاملہ میں خوش قسمتی کا بہت بڑا رول ہے۔ واقع سچ ہے Fortune Favors the Brave مقدر سے انسان سکندر بنتا ہے۔
ایک عام کھلاڑی سے پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان اور پھر اُس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننے تک رمیز کا سفر بڑا طویل اورنشیب و فراز سے عبارت ہے۔ بلا شبہ مستقل مزاجی کا صلہ ایک نہ ایک دن ضرور ملتا ہے۔ رمیز راجہ خم ٹھوک کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ " عمر گزری اِسی دشت کی سیاحی میں " مشکلیں اُن کی راہ میں بھی بہت آئیں لیکن انھوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، ہمت نہیں ہاری اور مایوس نہیں ہوئے کیونکہ مایوسی کفر ہے۔ ان کے پی۔ سی بی۔ (PCB) چیئر مین بنتے ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم کھیلے بغیر پاکستان سے واپسی ایک برقِ تپاں بن کر ان کے اوپر گر پڑی۔ گویا سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔
اس وقت پاکستان کرکٹ کو بہت سے مسائل اور مشکلات درپیش ہیں لیکن قوی امید ہے کہ پی۔ سی۔ بی۔ (PCB) کے نئے چیئر مین رمیز راجہ اپنے تجربے اور صلاحیت کی بنیاد پر تمام تر مسائل پر قابو پا لیں گے۔ انھوں نے اپنی پریس کانفرنس بھی اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نیت نیک منزل آسان۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے اور ان کا دامن بھی بالکل صاف ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ کرکٹ کھلاڑی اور دیگر تمام لوگ ان کے ساتھ بھر پور تعاون کریں اور انھیں کام کرنے کا پورا موقع دیں۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اعتراض برائے اعتراض اور اختلاف برائے اختلاف کا سلسلہ بند کیا جائے اور ان کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ جیسا کہ اب تک ہوتا رہا ہے، ہماری میڈیا سے گذارش ہے کہ وہ رمیز راجہ کو بھر پور سپورٹ کریں اور ان کے اصلاحی اقدامات کو خوب اجاگر کریں یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پاکستانی عوام اور خاص طور پر کرکٹ کے شائقین نے رمیز راجہ کی تقرری پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ہماری نیک خواہشات بھی ان کے ساتھ ہیں اور ہماری دعا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نیک ارادوں میں بھر پور مدد کریں۔ حالیہ بحران کا جوان مردی سے مقابلہ کر کے رمیز نے صلاحیت کو ثابت کر دکھایا ہے اور وہ ذرہ بھی گھبرائے نہیں پوری دنیانے ان کی خداداد ہمت کا اعتراف کیا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے آسٹریلیا کے نہایت باصلاحیت اور پاپولر بلے باز عثمان خواجہ نے بھی رمیز راجہ کی تعریف کی ہے اور نیوزی لینڈ کی ٹیم کے رویے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اگر ایسے حالات بھارت میں ہوتے تو کوئی واپس نہ جاتا اس کے علاوہ یہ بھی کہا کہ آسٹریلوی ٹیم پاکستان ٹور کرے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے ساتھ کرکٹرز منتظمین کا رویہ بالکل الگ ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دولت ہمیشہ اپنا کھیل کھیلتی ہے اور پیسہ بولتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور وہاں سیکیورٹی صورتحال سو فیصد بہترین ہے۔ عثمان خواجہ اس صورتحال سے کافی نالاں اور دل شکستہ دکھائی دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتہ میرے لیے انتہائی مایوس کن تھا۔ پلیئرز اور اورگنائزرز پلیئر ز کے لیے یہ کہنا بہت ہی آسان ہے کہ ہمیں پاکستان میں نہیں کھیلنا کیونکہ یہ پاکستان ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے بار بار یہ ثابت کیا کہ ان کا ملک کرکٹ کھیلنے کے لیے محفوظ ترین جگہ ہے۔ یاد رہے کہ خود عثمان خواجہ رواں برس پاکستان سپر لیگ میں شریک ہوچکے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں پاکستان کا سفر خوشی سے کرونگا۔ انہو ں نے کہا کہ پاکستان میں بہت زیادہ سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستانی مٹّی کی خوشبو نے عُمان کرکٹ کو مہکا دیا۔
بھارتی ماہرین انٹرنیشنل معیار کی پچ کے لیے پاکستانی مٹّی استعمال کرنے کے لیے مجبور ہوگئے۔ T20 ورلڈ کپ کے ابتدائی چھ میچ الامارات اسٹیڈیم پر کھیلے جائیں گے۔ شیڈول کے مطابق مختصر طرز کے میگا ایونٹ کا ابتدائی راؤنڈ 17اکتوبر 2021 کو شروع ہوگا۔ چھ میچزکی میزبانی تین روز میں عمان کے شہر مسقط کو الامارات اسٹیڈیم میں کرنا ہے۔ اس کا انتخاب بھارت نے کیا اسٹیڈیم کو انٹرنیشنل معیار کا بنانے کے لیے کام کروانے والے بھی بھارتی ماہرین ہیں۔ اس کے باوجود اس پچ کے لیے پاکستانی مٹّی استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے۔ فیلڈ کا درمیانی حصہ پاکستانی مٹّی سے تیار کیا گیا ہے۔ خوش باش رمیز راجہ پاکستان زندہ باد!!!