بچھڑا وہ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے ملک کو ویران کر گیا
مندرجہ بالا شعر کے دوسرے مصرعے لفظ "شہر" کی تبدیلی کے بعد یہ شعر حرف بہ حرف محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقالِ پُر ملال پر صادق آتا ہے۔ ہر آنکھ اشک بار ہے ہر قلب سوگوار ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے خصوصی ملاقات کا شرف تو حاصل نہ ہو سکا لیکن اُن کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھنے کا موقع ایک مقام پر اُس وقت میسر آیا جب میرا تبادلہ ریڈیو پاکستان کراچی سے اسلام آباد ہوا تھا۔ تاہم اُن سے ایک مرتبہ بالمشافہ ملاقات اور مصافحہ کرنے کا سنہری موقع کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں اُس وقت حاصل ہوا جب اُن کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ یہ تقریب اُن کے چاہنے والوں نے بڑے شاندار طریقے سے منعقد کی تھی۔ اِس میں وہ لوگ بھی شامل تھے کہ جنھوں نے اُن کے کام میں معاونت کا قومی فریضہ بھی انجام دیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کا چہرہ اُس وقت خوشی سے دمک رہا تھا اور وہ نمایاں طور پر ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ اِس یادگار تقریب میں انھوں نے مختصر سا خطاب بھی کیا تھا جس میں شعر و ادب کی چاشنی بھی شامل تھی۔ بعد میں یہ عقدہ بھی کھُلا کہ موصوف محض نرے سائنسداں ہی نہیں بلکہ با ذوق شخص اور سخنور اور لکھاری بھی تھے۔ علم کا شوق و ذوق انھیں اپنے والد بزرگوار سے ورثہ میں ملا تھا جو بھوپال کے ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ اُن کا خاندان بھوپال میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
وطنِ عزیز پاکستان کی کشش اُن کو اور اُن کے خاندان کو کھینچ کر لے آئی اور وہ شہرِ قائد کراچی کے گنجان محلہ رنچھور لائن میں آکر قیام پذیر ہو گئے۔ اِسی شہر کی درسگاہوں میں انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ایک معمولی سی ملازمت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور بہت جلد ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو کر اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔
بقولِ علّامہ اقبالؔ:
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
عبد القدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجئیم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976 میں واپس پاکستان لوٹ آئے۔ عبد القدیر خان نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جب کہ بیلجئیم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئری ریسرچ لیبارٹریز"کے پاکستانی ایٹم بم پروگرام میں حصہ لیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981 کو تبدیل کرکے " ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیباریٹریز"رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے نومبر 2000 میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔
عبدالقدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے غلطی سے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن، ہالینڈ، بیلجیم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انھوں نے عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بَری کردیا، بالآخر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورمیں آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے، اس موقع پر عبد القدیر خان نے پورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔ یوں آپ پوری دنیا میں مقبول عام ہوئے۔
سعودی مفتی اعظم نے عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کے لیے خام حالت میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا۔ اس کے بعد سے پاکستان کو سعودیہ عرب کی جانب سے خام تیل مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔ مغربی دنیا نے پروپیگنڈہ کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو"اسلامی بم" کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔ پرویز مشرف کے دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبدالقدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظر بند رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔ اُن کو اُن کی بے لوث خدمات کی وجہ سے بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ 1993 میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔
14 اگست 1996 میں صدرِ پاکستان فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جب کہ 1989 میں اُن کو ہلالِ امتیاز کا تمغہ بھی عطا کیا گیا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سیچٹ (sachet) کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرمِ عمل ہے۔ انھوں نے پاکستان کے لیے جو کارنامہ انجام دیا وہ سب کے سامنے ہے۔ وہ چونکہ سخن شناس تھے اس لیے ان کے کالموں میں کلاسیکی شاعروں کے ساتھ ساتھ جدید شاعروں کے اشعار پڑھنے کو ملتے تھے۔ غالب، مومن، مصحفی، جگر، جوش، اقبال، مجاز، اختر شیرانی، فیض، عدم اور فراز کی شاعری کے شوقین تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے اردگرد ہر وقت شاعری کی کتابیں دھری رہتی تھیں۔ سوانح عمریاں وہ شوق سے پڑھتے تھے۔ لوگ انھیں اپنی کتابیں تحفتاً بھیجتے تو ان کی باقاعدہ رسید دیتے۔ 28 مئی 1998کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی دھماکے کر دیے تو ڈاکٹر صاحب کی نیک نامی اور شہرت کا گراف یک دم بلندیوں کو چھونے لگا۔ غیر کیاہمارے کچھ اپنوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ طعنہ زنی ہوئی، الزام لگے۔ ڈاکٹر صاحب بجا طور پر سمجھتے تھے کہ ایٹمی توانائی کو استعمال کرکے ملک کو اندھیروں سے نکالا جا سکتا ہے لیکن وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ دروغ گو حکمرانوں کی موجودگی میں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔
وطن عزیز کی یہ خوش نصیبی تھی کہ اُس کے پاس ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا جوہرِ قابل موجود تھا جس نے سربراہِ مملکت ذوالفقار علی بھٹو کی آواز پر لبیک کہا اور اپنا انتہائی روشن اور تابناک مستقبل اور عیش و آرام ترک کرکے دفاعِ وطن کی خاطر انتہائی قلیل مدت میں ایٹم بم بنا کر پاکستان کے ازلی دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا اور وطنِ عزیز کو ہمیشہ کے لیے ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ یہ قابلِ ذکر بات ہے کہ بھٹو صاحب کے بعد کے سربراہان بشمول جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی اِس سلسلے میں اپنا حق ادا کردیا لیکن افسوس صد افسوس اُس کے بعد جو سلوک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ نیکی کر اور تھانے جا، یا
بقولِ شاعر: اے روشنیِ طبع تو برمن بلا شُدی
عرصہ حیات اُن پر تنگ کردیا گیا حتیٰ کے اُن کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے لیے خراجِ تحسین و عقیدت کے طور پر یہ قطع پیشِ خدمت ہے:
اک مردِ باکمال تھے عبدالقدیر خان
اپنے وطن کی ڈھال تھے عبدالقدیر خان
ایسا کوئی ہوا ہے نہ ہوگا کوئی شکیلؔ
لاریب بے مثال تھے عبدالقدیر خان