اپریل کا مہینہ ہمارے نزدیک نہایت اہم مہینہ ہے۔ اسی ماہ کی 21 تاریخ کو نابغۂ روزگار، فلسفی اور شاعر بے بدل علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا وصال ہوا۔ اقبال کے بارے میں کچھ بھی کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ایسے عظیم لوگ کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ خود انھی کے بقول:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
برصغیر کی سیاسی تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ تصور پاکستان کے حوالے سے "مصور پاکستان" کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک بیرسٹر تھے لیکن انھوں نے اپنے لیے شاعری کا انتخاب کیا جس کی بدولت انھیں پوری دنیا میں ایسی مقبولیت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو میسر آتی ہے۔
علامہ اقبال نہ صرف ایک عہد ساز شخصیت کے حامل تھے بلکہ پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے علمبردار بھی تھے۔ اردو زبان کے علاوہ انھیں عربی، فارسی اور انگریزی پر بھی عبور حاصل تھا اور ان کا شمار اُردو اور فارسی کے منفرد لب و لہجے کے شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کے کئی ادوار ہیں۔
ابتدا میں انھوں نے اسی انداز کی شاعری کی جو انھیں اپنے سے پہلے کے سخن وروں سے ورثے میں ملی تھی لیکن بعد میں ان کا رنگ اور آہنگ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں والی کہاوت ان پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ جس کا اظہار ان کے استاد داغ دہلوی نے ان کا کلام دیکھتے ہی برملا کردیا تھا۔ اس حوالے سے ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبان پر بھی علامہ اقبال کو مکمل عبور حاصل تھا جس نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے اشعار میں ہندی بھاشا کا خوبصورت استعمال بھی انھی کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتارکا غازی بن تو گیا، کردارکا غازی بن نہ سکا
قلم کو بو قلم کے طور پر استعمال کرنے میں اقبال کو غیر معمولی کمال حاصل تھا۔ وہ الفاظ کے ذریعے تصویر کشی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کا درجہ ذیل خوبصورت شعر اس کا ایک نمونہ ہے:
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، پیلے پیلے، نیلے نیلے پیراہن
اس شعر میں نہ صرف بلا کی غنائیت ہے بلکہ تشبیہ کا منفرد استعمال بھی شامل ہے۔ علامہ اقبال سے ہمارا اولین تعارف ان کی اس دعائیہ نظم کے حوالے سے طالب علمی کے زمانے میں ہوا تھا۔ ان کی یہ دعا نہ صرف بچے بچے کی زبان پر رواں ہوئی بلکہ برصغیر کے لاکھوں اسکولوں ہر روز تعلیم کے آغاز سے قبل پڑھنا لازمی قرار پائی اور نصاب کا حصہ بن گئی:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اس دعا سے ہمارا تعلیمی ماحول آج بھی معطر ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے لکھی گئی علامہ اقبال کی خوبصورت نظموں کا آج بھی چرچا ہے مثلاً ان کی یہ نظمیں "پہاڑ اور گلہری" اور "جگنو"۔ بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ نظمیں بچوں کی افتاد طبع کے عین مطابق ہیں۔ بچے ان نظموں کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور بے حد لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان نظموں میں بچوں کے لیے اثر انگیز سبق بھی موجود ہے۔
اقبال کی ابتدائی شاعری میں حب الوطنی کا عنصر نمایاں ہے۔ اس کی نہایت خوبصورت مثال ان کی مشہور و مقبول نظم "ترانۂ ہندی" کی صورت میں موجود ہے۔ ان کی اس نظم نے ان کی مقبولیت کو انتہائی عروج تک پہنچایا۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
یہ نظم اتنی مقبول ہوئی کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ اسے قومی ترانے کا درجہ حاصل ہو گیا۔
علامہ اقبال کا اختصاص یہ ہے کہ دیگر بہت سے شعرا کی طرح وہ محض شعر گو نہ تھے بلکہ ایک فلسفی، مفکر اور انتہائی وسیع المطالعہ شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی فہم اور دانش کا دائرہ انتہائی وسیع تھا۔ انھوں نے مغرب کا صرف مطالعہ ہی نہیں کیا تھا بلکہ مشاہدہ بھی کیا تھا۔
وہ مغربی تہذیب کے رگ و ریشے سے خوب واقف تھے جس کا عکس ان کی شاعری میں صاف نظر آتا ہے۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں انھیں خوب معلوم تھیں۔ سرمایہ دار کے ہاتھوں غریب مزدور کا ظالمانہ استحصال ان کے لیے باعث اذیت اور ناقابل برداشت تھا۔ اس پر ان کا دل بہت زیادہ کڑھتا تھا چنانچہ اس کا پرزور اور برملا اظہار ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ یہ احساس اسی قدر شدید ہے کہ انھیں یہ کہنا پڑا:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
حیات اقبال اور فکر اقبال جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ یہ ہمیں مسلسل متحرک رہنے کا درس دیتی ہے۔ انسان اگر مسلسل متحرک نہ رہے تو اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور جمود موت کی علامت ہے۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں:
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
علامہ اقبال اتحاد بین المسلمین کے زبردست حامی تھے۔ انھیں اس بات کا بڑا قلق تھا کہ مسلم امہ مختلف حوالوں سے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور اس کے زوال کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے۔ عربی اور عجمی کے فرق کے علاوہ ذات پات اور کنبے قبیلے کی تقسیم نے بھی اسے کمزور کر رکھا ہے۔ یہ صورت حال اسلام مخالف قوتوں کو تقویت پہنچا رہی ہے۔
اقبال کو دشمنان اسلام کی اس سازش کا پورا احساس تھا کہ "تقسیم کرو اور لڑاؤ" کی پالیسی کے ذریعے ہی مسلم امہ پر غلبہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے مختلف حیلوں اور بہانوں سے اسلامی ممالک میں کوٹ کوٹ کر پھوٹ ڈلوا دی جو آج تک موجود ہے اور جس کی وجہ سے مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور بعض مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ چنانچہ اقبال نے پورے زور و شور کے ساتھ نہایت بلند آواز میں یہ دعوت دی:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر