وطن عزیز پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار اور بے تحاشہ دولت اور نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس میں اونچے اونچے پربت، جنت نظیر وادیاں، سرسبز و شاداب کھیت اور باغات زیر زمین دفن معدنی خزانے اور افرادی قوت شامل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے عنایت ربی سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا جاسکے۔
افسوس کہ ہمارے بیشتر حکمرانوں نے اپنی خود غرضی اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہونے کے باعث اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ان کا بیشتر وقت اپنے اقتدارکو برقرار رکھنے اور طول دینے کی بھینٹ چڑھ گیا۔
وطن عزیز میں بے روزگاری کا مسئلہ کم و بیش ہمیشہ سے رہا ہے جس کی وجوہات میں جانے کا اس وقت موقعہ نہیں۔ کنایتاً عرض ہے کہ ملکی وسائل کو پوری طرح بروئے کار لایا ہی نہیں گیا ورنہ تو اس دیس کی دھرتی سونا اگلتی اور اس کے باسیوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر دیار غیر کی خاک چھاننا نہ پڑتی تاہم اس بات کا کریڈٹ ان لوگوں کو جاتا ہے جو اپنے پیاروں کو چھوڑ کر دیار غیر میں محنت مشقت کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور اپنے پیارے وطن پاکستان کے لیے قیمتی زر مبادلہ کما کما کر بھیج رہے ہیں اور اس طرح مالیاتی بحران کا شکار اپنے وطن کی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو غم اور خوشی، دکھ اور بیماری کے نازک مواقع پر اپنے گھر والوں کے پاس موجود نہیں ہوسکتے اور جن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بقول غالب:
پڑیے گر بیمار توکوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
بیرون ملک نامساعد حالات میں کام کرنے والے ان بیشتر پاکستانیوں کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ ان میں غالب اکثریت ان مزدور پیشہ افراد کی ہے جو شدید گرمی میں جلتے سورج تلے تعمیراتی سرگرمیوں میں مصروف ہو کر اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں اور جن کی راتیں کنٹینرز میں بنے ہوئے گھروں پر بے چینی کی حالت میں رہ کر گزرتی ہیں۔
یہ لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی جمع پونجی وطن عزیز کو بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں، انجینئروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے وہ ماہرین جنھیں وطن عزیز میں میرٹ کے قتل عام اور سورس سفارش کی وجہ سے مناسب نوکریاں نہیں ملتیں بیرون ملک جا کر خدمات انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ملک بہترین ٹیلنٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔
1971-2005 کے دوران 4 ملین سے اوپر یا اس کے بھی ڈبل تعداد میں پاکستانی سعودی عرب اپنی خدمات انجام دینے کے لیے جا چکے ہیں۔ کثیر تعداد میں مزدور، ٹیکسی ڈرائیورز اور تعمیراتی مزدور شامل ہیں۔ یہ محنت کش سعودی عرب کے صحراؤں اور ریگ زاروں میں تپتی دھوپ اور شدید گرمی برداشت کرکے اپنی روزی کماتے ہیں اور وطن عزیز کے خزانے کو اپنی خون پسینے کی کمائی سے مالا مال کرتے ہیں۔
ان کی عیدیں اپنے پیاروں سے دور دیار غیر میں گزرتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر لوگوں کو صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر آتا ہے کیونکہ یہ کوڑی کوڑی اور پائی پائی جمع کرتے ہیں اور وطن عزیز کو غیر ملکی زرمبادلہ سے مالا مال کرتے ہیں۔ ان کے لیے نہ دن کا چین ہے اور نہ رات کا سکھ۔ ان بے چاروں کو سالوں سال تک اپنے گھر جا کر اپنے پیاروں کے منہ دیکھنے کا موقعہ میسر نہیں آتا۔ ان تارکین وطن نے 2019-2020 کے درمیان زرمبادلہ کی صورت میں 23 بلین ڈالرز کما کر وطن عزیز کی عظیم خدمت انجام دی ہے جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ لوگ وطن عزیز کے نہ صرف اصل کماؤ پوت بلکہ سفیر بھی ہیں جو اپنی خدمات کے ذریعے وطن عزیز کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے بعض سفارت کار جن کا کام ہی صرف سفارت کاری ہے اپنی غفلت یا نااہلی کی وجہ سے اپنے فرائض سے عدم دلچسپی اور کوتاہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
انتہا یہ ہے کہ بعض اہم ممالک میں بعض اوقات کوئی سفیر ہی موجود نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بعض سفارت کاروں کی عدم دلچسپی کا خمیازہ بیرونی ممالک میں مصروف کار پاکستانی شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انھیں مشکلات اور بعض اوقات خفت اٹھانا پڑتی ہے۔
یہ غیر ذمے دارانہ رویہ ان کے فرائض منصبی کے خلاف ہے۔ اس صورت حال کا وزیر اعظم عمران خان نے بڑا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ وزیر اعظم نے سعودی عرب میں متعین پاکستانی سفارت خانے کی کوتاہی پر خاص طور سے تشویش ظاہر کی ہے اور شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ خلیجی ریاستیں، خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عمان جنوبی ایشیا کے ممالک بالخصوص پاکستان کے لیے خصوصی اہمیت کی حامل رہی ہیں، مگر افسوس کہ ان ممالک میں خدمات انجام دینے والے پاکستانی شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں جس کے نتیجے میں یہ بے چارے طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں اور خود کو لاوارث محسوس کرتے ہیں۔
ہمیں ذاتی طور پر ان میں سے بعض ریاستوں میں بذات خود جانے کا اتفاق ہوا ہے اور ہم اس صورتحال کے عینی شاہد ہیں بلاشبہ یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اور فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس کا سختی سے نوٹس لیا ہے لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی یہ کوشش رات گئی، بات گئی کے مصداق رائیگاں نہ ہو جائے۔
ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں پاکستان اور پاکستانیوں کی بڑی قدر و منزلت تھی اور انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سفارت کاروں کی بے توجہی کی وجہ سے میدان ہمارے ہاتھوں سے نکل کر ہمارے بد ترین حریف بھارت کے ہاتھوں میں چلا گیا جس کے نتیجے میں آج خلیجی ریاستوں حتیٰ کہ مسلمانوں کی مقدس سرزمین سعودی عرب میں بھی غیر مسلموں، بشمول ہندوؤں کو فوقیت حاصل ہے صرف یہی نہیں بلکہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ پاکستانی ورکرز کو فارغ کرکے ان کی جگہ پر ہندوؤں کو ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب میں بہت سے پاکستانی مختلف جرائم کی پاداش میں جیل خانوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اور اس سلسلے میں بلاتاخیر ضروری قدم اٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس گمبھیر صورتحال کا بھی نوٹس لے لیا ہے اور توقع ہے کہ ان پاکستانیوں کی قانونی اور اخلاقی معاونت کا بندوبست بھی کیا جانے والا ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے قبل جب سعودی پرنس محمد بن سلمان فروری 2019 میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو اس موقع پر بھی وزیر اعظم عمران خان نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی جس کے نتیجے میں سعودی عرب میں قید 2000 پاکستانیوں کو رہائی حاصل ہوئی تھی۔