نظام حکومت کوئی بھی ہو، اسے چلانے کے لیے انتظامیہ اور سفارت کاری کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری مراد ان دو اداروں سے ہے جنھیں بیورو کریسی اور ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو عجب بے سروسامانی کا عالم تھا۔ انتہا تو یہ تھی کہ لکھنے کے لیے کاغذ و قلم اور منسلک کرنے کے لیے پیپر پن تک دستیاب نہ تھی۔
پیپر پن کے لیے ببول کے کانٹے استعمال کیے جاتے تھے۔ لیکن ان نامساعد حالات میں بھی حکومتی اداروں کی کارکردگی قابل تحسین تھی، جس کا بنیادی سبب حب الوطنی اور خدمت وطن کا جذبہ صادق تھا۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت کے مطابق ملک کے افسران اپنے آپ کو خادم وطن سمجھتے ہوئے کام کرتے تھے، جو برطانوی دور کے اہلکاروں کے مزاج اور برتاؤ کے عین برعکس تھا۔
چنانچہ اس دور میں بیورو کریسی اور ڈپلومیسی دونوں ہی کی کارکردگی اپنے عروج پر تھی، لیکن قائد اعظم کی وفات اور اس کے بعد ان کے دست راست وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد حالات بگڑنے لگے اور زوال کا آغاز ہونے لگا۔ تاہم یہ سلسلہ اتنا تیز رفتار نہیں تھا۔ لیکن پھر وہ دور بھی آیا جب میرٹ کا قتل عام شروع ہوگیا اور کرپشن اور سفارش نے اس کی جگہ لے لی۔ افسوس کہ کوئی بھی ادارہ اس کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ جس میں بیورو کریسی اور ڈپلومیسی بھی شامل ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بیورو کریسی اور ڈپلومیسی دونوں ہی شعبوں میں بڑے نامی گرامی لوگ شامل تھے۔ سفارت کاری کے شعبے میں آغا شاہی، راجہ غضنفر علی، صاحبزادہ لیاقت علی خان، نوابزادہ شہر یار خان اور عزیز احمد جیسے عظیم لوگ تھے، جنھوں نے بیرونی ممالک میں بحیثیت سفارت کار وطن عزیز کا نام خوب روشن کیا۔ سفارت کاری کی اس فہرست میں اور بھی بہت سے نام شامل ہیں۔ ان میں عبدالستار، شمشاد احمد، عبدالباسط کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سفارت کاری کا کام اتنا آسان نہیں۔ کیونکہ اس کے لیے خصوصی مہارت، اہلیت اور غیر معمولی دانش مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خداداد صلاحیت اس کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام اور فروغ کے لیے عمدہ سے عمدہ سفارت کاری لازم و ملزوم ہے۔ اس کے لیے سفیرکے تقررکے وقت اس کی موزونیت کا لحاظ رکھنا بڑا اہم ہے۔ سفارت کاری کا دائرہ صرف باہمی تعاون اور دوستی بڑھانے کی حد تک ہی نہیں بلکہ تجارت کو فروغ دینے تک وسیع ہے۔
سفارت کاری کے میدان میں ہمارا سب سے بڑا حریف بھارت ہے، جو ہمیں ناکام کرنے کے لیے اور ہم پر سبقت حاصل کرنے کے مقصد سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا جس کی سب سے بڑی مثال مسلم ممالک، بالخصوص مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کا قیام ہے۔ یہ ریاستیں تیل کی فراوانی کی وجہ سے سونے کی کانیں ہیں۔ جن کے ساتھ تجارت اور انفرادی قوت کو بروئے کار لانا کسی بھی ملک کے لیے غیر ملکی زر مبادلہ کمانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ خلیجی ریاستیں اور سعودی عرب اس اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔
ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب ان ریاستوں اور سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نمایاں اور خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کے ساتھ تعلقات کمزور ہوتے چلے گئے اور بھارت سبقت حاصل کرگیا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ کام اسلام دشمن اور مسلم کش بھارت کی موجودہ سرکار کے دور میں انجام پایا ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں اور جس کے ایما پر ہندوستان کی مشہور تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا دل خراش سانحہ پیش آچکا ہے اور مسلم کشی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ریاستوں اور سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی شہریوں پر بھارت کے شہریوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جب ایک پاکستانی سفیر کی ناقص کارکردگی پر سرزنش کی تو گویا ایک طوفان برپا ہو گیا اور بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا گویا:
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں
وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ سعودی عرب کا دورہ اس تناظر میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ امید ہے کہ ان کے اس دورے کے نتیجے میں دونوں برادر ممالک ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب آئیں گے اور تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ بہتر ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان اسی مقصد سے جلدازجلد یو اے ای اور دیگر خلیجی ریاستوں کا دورہ بھی کریں تاکہ ان کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات فروغ پائیں۔