جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
معروف اور مقبول طنز و مزاح نگار ایس، ایم، معین قریشی ملک عدم روانہ ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ مزاح نگار تو اور بھی ہیں لیکن جو انداز اور اسلوب معین قریشی کا تھا اس پر ان کی ایک الگ چھاپ لگی ہوئی تھی۔ ان کے فقروں کی تراش و خراش Razors Edge کی طرح میٹھی اور تیز دھار تھی۔ الفاظ کو الٹ پلٹ کر ایک عجیب سماں باندھنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ بقول غالب:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
ریڈیو پاکستان میں ان کا بہت آنا جانا تھا جہاں ان کے انتہائی قریبی دوست اور ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر ڈاکٹر ارشاد الحق قدوسی کے کمرے میں ان سے اکثر ملاقاتیں رہیں۔ برسوں پہلے ان سے آخری ملاقات اس وقت ہوئی جب یہ خاکسار اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی حیثیت میں خدمات انجام دے رہا تھا اور وہ اچانک تشریف لے آئے تھے۔ سچ پوچھیے تو یہ کل کی سی بات لگتی ہے۔
میر صاحب نے ٹھیک ہی کہا ہے:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
مزاح نگاری ہنسی کھیل نہیں ہے، یہ بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے بس ذرا سا پھسلے نہیں کہ پھکڑ پن کے دلدل میں جا دھنسے۔ بڑے بڑے تیس مار خاں اس میں مار کھا سکتے ہیں۔ ایس، ایم معین قریشی کا طنز و مزاح نہ تو اتنا دقیق ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے بحر بے پایاں میں غوطہ زن ہونا پڑے اور نہ ہی اتنا اتھلا ہے کہ اس میں بازاری ہونے کی جھلک نظر آئے۔ اس کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ کرافٹس مین شپ (Craftsmenship) سے مبرا اور مصنوعیت سے پاک اور برجستگی سے آراستہ ہے۔
ان کی تحریر تیر کی طرح قاری کے قلب و ذہن میں اتر جاتی ہے۔ معین قریشی کو زود نویسی کے ساتھ ساتھ بسیار نویسی میں بھی کمال حاصل تھا۔ انھوں نے بہت لکھااور جو بھی لکھا خوب لکھا۔ اس حوالے سے وہ شوکت تھانوی کے مماثل اور ہم پلہ و ہم رقاب نظر آتے ہیں۔ یہ محض ہماری رائے ہے کوئی فتویٰ نہیں کیونکہ ہم اردو ادب کے مفتی ہونے کے دعویدار نہیں بلکہ ایک ادنیٰ طالبعلم ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی جون 1942 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔
مرحوم نے ایل ایل بی، ادیب فاضل اور صحافت میں ایم اے کیا اور بعد ازاں صوبائی سوشل سیکیورٹی ادارے سے وابستہ ہوئے۔ جامعہ کراچی میں صحافت کی تعلیم کے لیے اعزازی تقرری بھی ہوئی۔ مرحوم نے 1953 میں اپنی ایک تحریر کی اشاعت کے بعد مزاح نگاری کا سلسلہ شروع کیا اور خوب نام کمایا۔ انھوں نے مجید لاہوری جیسے نامور مزاح نگار کے مقبول ترین رسالے "نمکدان" سے طنز و مزاح نگاری کا سفر شروع کیا۔ 1962 میں اس رسالے کی بدولت ان کا نام طنز و مزاح نگار کے طور پر قارئین کے سامنے آیا۔
اسی میدان میں انھوں نے انگریزی زبان میں بھی قلم کو تحریک دی اور 1982 سے مشہور و مستند انگریزی جرائد اور روزناموں کے لیے کالم لکھنے لگے۔ انھوں نے ابن منشا کے قلمی نام سے بھی اردو کالم لکھے۔ 1983 میں ان کی کتاب سماجی تحفظ سامنے آئی جو ایک نہایت اہم موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے بعد اشتہاریات کے عنوان سے اردو میں ان کی وہ قابل قدر کاوش سامنے آئی جسے آج بھی مارکیٹنگ کے نصاب میں اولین اور نہایت کارآمد تصنیف کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے پہاڑ تلے، اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں، کتنے آدمی تھے، حواس خستہ جیسے شگفتہ مضامین پر کتب کے علاوہ دیگر موضوعات پر لگ بھگ 26 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ وہ طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جب کہ علمی و ادبی موضوعات میں انھیں ایک محقق، مترجم، اور زبان و بیان کے ماہرکے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
انھوں نے شائستہ اور بامقصد ادب تخلیق کرنے کو اہمیت دی۔ ایک بیدار مغز لکھاری کی طرح معاشرے میں بے ضابطہ پن پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی مضامین اور کالم لکھے اس کے علاوہ انھوں نے الیکٹرونک میڈیا بشمول ریڈیو اور ٹی۔ وی پر بھی اپنے جوہر خوب دکھائے۔ وہ ایک تہ دار شخصیت کے مالک تھے ان کا دائرہ تحریر بھی انتہائی وسیع تھا جس میں مذہبی موضوعات پر مضامین بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے ایڈورٹائزنگ کے موضوع پر بھی ایک نہایت وقیع اور بہترین کتاب بھی تصنیف کی جو اردو صحافت میں ایک مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے اور جرنلزم کے طلبا کے لیے بہترین گائیڈ ہے۔ انھوں نے یونیورسٹی لیول پر بحیثیت استاد اپنی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا۔ ان کے پاؤں میں بلیاں بندھی ہوئی تھیں اور ابن بطوطہ کی روح ان میں سمائی ہوئی تھی اور سیاحت ان کا عشق تھا گویا:
ملک خدا سنگ نیست پائے گدالنگ نیست
اس حوالے سے ہمیں جوانی میں پڑھا ہوا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگانی گر رہی تو نوجوانی پھر کہاں
ان کے سفرنامے نہ صرف انتہائی دلچسپ ہوتے ہیں بلکہ انھیں پڑھتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ خود سفر کر رہا ہے۔ معین قریشی غیر معمولی طور پر متحرک انسان تھے اور ٹک کر بیٹھنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ مصروف رہنا ان کی گھٹی میں شامل تھا:
مسافر نہیں، میں ٹھہر جانے والا
ادھر آنے والا، ادھر جانے والا
اور پھر یوں ہوا کہ وہ سفر پر روانہ ہو گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔