اس وقت وطن عزیز پاکستان میں خوف ناک ترین وبا کورونا کی چوتھی لہر آئی ہوئی ہے، اس وبا نے عوام کا دن کا چین اور رات کا سونا حرام کر رکھا ہے۔
اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں جن میں ہمارے عزیز دوست اور نامی گرامی شاعر نقاش کاظمی بھی شامل ہیں جن کی وفات ابھی حال میں کراچی میں ہوئی تھی، نقاش کاظمی جیسا شاعر برسوں میں پیدا ہوتا ہے، اس سے قبل ریڈیو پاکستان کے ہمارے ایک قریبی ساتھی فرحان ہاشمی کورونا کے باعث رحلت فرماگئے، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔
بے شک موت سے کسی کو نجات نہیں ہے، ہماری ہمدردیاں مرحومین کے گھر والوں کے ساتھ ہیں کورونا کی وبا نے سب کو پریشان کر رکھا ہے لیکن اس عذاب کا علاج انسان کے بس میں نہیں بلکہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ ایک دوسری بیماری میں مبتلا ہے جس کا علاج انسان کے ہاتھ میں ہے اس بیماری کا نام ہے غربت اس سے ملتی جلدی ایک اور بیماری بھی ہے جس کا نام بے روزگاری ہے۔
اس وقت ملک میں سات کروڑ 38 لاکھ لوگ غربت کا شکار ہیں جب کہ موجودہ حکومت کے ایک وزیر باتدبیر کا فرمانا ہے کہ غربت کہاں ہے؟ ان پیٹ بھرے اندھوں کو غربت نظر نہیں آتی، غربت کا سب سے بڑا نشانہ وہ مزدور ہیں جن کی کمائی سے بال بچوں کی تعلیم تو کجا پیٹ پالنا بھی بہت مشکل ہے۔
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
غریب کا پرسان حال اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے خالق بھی وہی ہے رازق بھی وہی ہے اس کا سب کچھ اللہ کے سہارے پر ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وطن عزیز لاوارث ہو گیا اس کے بعد سے کرسی کا کھیل جاری ہے۔ اسی کھیل کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوکر آدھا رہ گیا اور اب باقی آدھے ملک کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں اور قوم حیران و پریشان ہے کہ کیا کیا جائے، مرزا غالب کے الفاظ ہیں:
کوئی امید بَر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
قوم کو ایک مسیحا کی تلاش تھی جو اسے عمران خان کی صورت میں نظر آیا۔ اس لیے اس نے عمران کو ووٹ دے کر الیکشن میں جتوا کر اقتدار میں لا کر وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیا عوام کو عمران خان سے بڑی امیدیں تھیں کہ وہ قوم کی کشتی طوفان کی زد سے بچا لے گا اور ملک کی قسمت سنوار دے گا۔ عمران خان نے قوم سے بڑے بڑے وعدے کیے تھے لیکن افسوس کہ کافی وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک ایک بھی وعدہ وفا نہیں ہو سکا اور حالات بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، بقول غالب:
ہم کو ان سے ہے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کا جینا حرام کردیا ہے اور دو وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے گوشت تو کیا دال بھی حاصل کرنا بہت مشکل ہے ضرورت کی اشیا کا خریدنا بھی آسان کام نہیں ہے آٹے سے لے کر دال اور نمک مرچ تک ضرورت کی ہر چیز کی خریداری مشکل ہے۔
آٹے کی قیمت بڑھاتے بڑھاتے زمین سے لے کر عرش تک چلی گئی ہے آٹے کی 10 کلو والی تھیلی کم ازکم 600 روپے میں آتی ہے جب کہ گھی کی قیمت 350 روپے اور دودھ 120 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں پٹرول کی قیمتوں میں چار بار اضافہ کیا جاچکا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بھی چار گنا بڑھ گئی ہے۔ نہیں معلوم کہ آگے چل کر پٹرول کی قیمت اور کیا ہوگی اور مہنگائی کا سونامی کہاں تک جائے گا، پٹرول کی موجودہ قیمت 119 روپے 80 پیسے ہے جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔ میرتقی میر پھر یاد آ رہے ہیں جنھوں نے فرمایا تھا:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
موجودہ حکومت کو تقریباً تین سال ہونے والے ہیں لیکن تبدیلی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں وہ تبدیلی جس کے نام پر پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے ووٹ لے کر اقتدار حاصل کیا تھا۔ اب عوام کا حکومت سے یہ سوال ہے کہ تبدیلی کا مزید کتنا انتظار کیا جائے پاکستانی عوام نے سب کو آزما کر دیکھ لیا مگر اس حمام میں سب کے سب ننگے نظر آتے ہیں۔
افسوس کہ سب نے ہی مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں دیا، صرف چہرے بدلتے رہے اور حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ شدید مایوسی کی حالت میں کراچی میں روٹی روزی کمانے والے ایک مزدور کے الفاظ حقیقت حال کی ترجمانی کرتے ہیں۔ سارے کے سارے لیڈر ایک جیسے ہیں، غریب مزدور کا کسی کو بھی احساس نہیں ہے، انھیں تو صرف اپنی کرسی کی فکر ہے، اور صرف مال کمانے کی فکر ہے، سب کا مقصد صرف اقتدار کی کرسی حاصل کرنا ہے، میں نے سوچ لیا ہے کہ اگلے الیکشن میں ان میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا ہے۔
پاکستانی قوم آپ تمام قومی رہنماؤں سے مایوس ہوچکے ہیں لیکن ہمارے رب نے فرمایا ہے کہ مایوسی کفر ہے، اس لیے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، انشا اللہ کوئی نہ کوئی رہنما ایسا آئے گا جو قوم کی کشتی کو طوفان سے نکال کر لے جائے گا۔
وطن عزیز کی جو حالت ہے اس میں کچھ نہ کچھ قصور پاکستانی قوم کا بھی ضرور ہے۔ ہندی بھاشا کی ایک کہاوت بہت مشہور ہے "جیسی پرجا ویسا ہی راجا" یعنی جیسی رعایا ویسا ہی حکمران! گستاخی معاف! پاکستان کے عوام بھی بالکل معصوم اور بے عیب نہیں ہیں۔
ان میں بھی بے شمار اخلاقی برائیاں ہیں جن میں مفاد پرستی، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی جیسی خرابیاں موجود ہیں۔ لوگوں کے دل سے خوف خدا اور روز قیامت کا خوف نکل چکا ہے۔ انھیں محض دنیا داری سے دلچسپی ہے اور عاقبت کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ ان کا آخری ٹھکانہ یہ دنیا نہیں بلکہ آخرت ہے۔ تبدیلی محض زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ خوف خدا سے اپنا طرز عمل بدلنے سے ہی آئے گی۔ کسی شاعر کی یہ بات حرف بہ حرف درست ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم جو کچھ بوتے ہیں وہی کاٹتے بھی ہیں۔ بھگت کبیر نے کیا خوب کہا ہے:
بویا پیڑ ببول کا
آم کہاں سے پائے
باالفاظ دیگر جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ اقبال نے بالکل کھری بات کہی ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ہمارا حال یہ ہے کہ اوپر سے کچھ اندر سے کچھ۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ ہم ایک دوسرے کو تو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن نعوذباللہ خدا کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ یہ خود فریبی ہمیں نہ دین کا چھوڑے گی اور نہ دنیا کا۔ جب تک ہم اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کریں گے اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تبدیلی صرف ایک ہی صورت میں آسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارا ظاہر اور باطن ایک ہی ہو۔ بقول شاعر:
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
مثالِ موم ہو یا سنگ ہو جا