اس دنیا میں جتنی بھی بلائیں ہیں، ان میں سب سے بڑی بلا غربت ہے۔ غریب انسان کا نہ کوئی وارث ہوتا ہے اور نہ کوئی دوست۔ اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ حضرت بوم میرٹھی نے کیا خوب کہا ہے:
بوقت تنگ دستی آشنا بیگانہ می گردد
صراحی جوں شود خالی جدا پیمانہ می گردد
کبھی اماں کہا کرتی تھیں میرا لاڈلا، کبھی جورو کہا کرتی تھی میرا پیارا گھر والا، مگر جب مفلسی کا آن کر گھر کو لگا تالا مراد باد کو اماں گئیں، میرٹھ گئیں خالہ۔ اپنے تو اپنے مفلسی میں اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ حسب ضرورت غربت کے حوالے سے درجہ ذیل تبدیلی کے بعد ایک معروف شعر کے مصرعے کو یوں پڑھا جائے:
ہے جرمِ غریبی کی سزا مرگِ مفاجات
سچ پوچھیے تو غربت چھوت کی بیماری ہے جس کے لگ جانے کا خوف انسان کو ایک دوسرے سے ملنے میں قباحت محسوس ہوتی ہے۔ آج کے حالات کے تناظر میں اسے کورونا کہا جاسکتا ہے۔ غربت ہی آج تیسری دنیا کے ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس کا حل ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکا۔ ان ممالک میں وطن عزیز پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔
غربت مٹاؤ مہم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا چرچا تو بہت ہے لیکن عملی اقدام صفر برابر ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی باتیں تو بہت ہوتی رہیں لیکن ہوا یہ کہ بے چارے غریب کو روٹیوں کے بھی لالے پڑ گئے مگر ابھی حال ہی میں یہ حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں غربت کا خاتمہ ہوگیا ہے اس ہوش ربا انکشاف کا سہرا ہمارے وزیر دفاع پرویز خٹک کے سر ہے جنھوں نے یہ فرمایا ہے کہ ملک میں کوئی غربت نہیں، مہنگائی ہوگی تو ملک چلے گا۔
روزمرہ بڑھتی ہوئی کمر توڑ مہنگائی کا سنگین مسئلہ وزیر موصوف نے ایک جست میں حل کرکے دکھا دیا۔ وہ پیچیدہ مسئلہ جسے بڑے بڑے طرم خاں ماہرین معاشیات حل کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ہمارا بس چلے تو وزارت خزانہ کا قلم دان بھی انھی کے حوالے کردیں۔
بابائے معاشیات ایڈم اسمتھ کی روح ہمارے ان وزیر باتدبیر کے اس تجزیے کو سن کر یقینا تڑپ اٹھی ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ عصر حاضر کے اعلیٰ ترین ماہر معاشیات بھی اس تجزیے پر اپنے سر پیٹ رہے ہوں گے۔ دور کی کوڑی لانا شاید اسی کو کہتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ کے موقع پر ہٹلر کے پروپیگنڈا اسپیشلسٹ اور بدنام زمانہ ڈاکٹر گوئبلز کی روح وزیر موصوف کے اندر حلول کر گئی ہے جس کا مقولہ یہ تھا کہ بے دھڑک اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں مگر کہاوت یہ بھی ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور ایک نہ ایک دن اس کا بھانڈا ضرور پھوٹتا ہے۔
چنانچہ وزیر موصوف کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود ان کے باس وزیر اعظم عمران خان نے ہی ان کے جھوٹ کی قلعی کھول دی۔ وزیر اعظم نے ابھی حال ہی میں بڑھتی ہوئی غربت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ وزیر موصوف کے ساتھ بینائی کا کوئی مسئلہ ہے جو انھیں غربت کو دیکھنے سے روک رہا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ مشہور کہاوت یاد آ رہی ہے کہ:
ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے
اصل معاملہ تو یہ ہے کہ مہنگائی کا ایک اور ریلا آنے والا ہے جس کا اشارہ عالمی ساہوکار آئی ایم ایف دے چکا ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ اصرار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے اس کے علاوہ اور بھی کئی تقاضے ہیں جن کی تکمیل کے نتیجے میں وطن عزیز میں۔ گرانی کے شعلے مزید بھڑک سکتے ہیں۔
اسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ پی ٹی آئی کے اولین وزیر خزانہ اسد عمر سے وزارت خزانہ کا قلم دان اسی بنا پر واپس لے لیا گیا کہ وہ آئی ایم ایف کے ناجائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، جس کے بعد یہ قلم دان بار بار تبدیل کیے گئے۔ موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین بھی اسی چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ ساہوکار کا مطالبہ یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے 150 ارب پرسنل انکم ٹیکس مزید بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے جس کی لپیٹ میں بے چارے ملازمین بھی آئیں گے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بجلی کی قیمت میں مزید اضافے کے نتیجے میں مہنگائی اور صنعتی پیداوار کی لاگت میں بھی اضافہ ہو جائے گا جس سے ہماری برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور بین الاقوامی منڈیوں میں ہماری مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی اور ہماری ایکسپورٹ شدید طور پر متاثر ہوں گی۔ یہ تو آپ سبھی جانتے ہیں کہ ملکی معیشت کا دار و مدار غیر ملکی زرمبادلہ پر ہی ہے جس کے اصول کا سب سے بڑا ذریعہ برآمدا ہی ہیں۔ گویا بجلی کے نرخ اور صنعتی پیداوار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بجلی جتنی سستی ہوگی صنعتی پیداوار بھی اسی تناسب سے بڑھے گی۔ چنانچہ اگر بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا گیا تو اس کے نتیجے میں ہماری صنعتوں کا پہیہ بھی جام ہو جائے گا اور ترقی کی راہ پر ہمارا سفر دشوار ہو جائے گا۔
وزیر دفاع کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو ان کی نگاہ کمزور ہے یا وہ اپنے حلقہ انتخاب کے اصل حالات سے بالکل ہی بے خبر ہیں اور انھیں یہ تک معلوم نہیں کہ وہاں کے لوگوں کی اکثریت غربت کے کس عذاب میں مبتلا ہیں جس کے باعث مرد تو مرد وہاں کی عورتیں بھی طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔
روٹی روزی کے مسئلے کے علاوہ بنیادی ضرورتوں کے اور بہت سے مسائل بھی درپیش ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ انھیں ان کے گھر پر پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ بے چاری خواتین کو سروں پر پانی کے بھاری مٹکوں کو اٹھائے ہوئے دور تک جانا پڑتا ہے اور یہ روزانہ کا معمول ہے۔ غربت کی یہ انتہا وزیر موصوف کو شاید معلوم نہیں ہے۔ لاعلمی کا جب یہ عالم ہو تو پھر دفاع جیسے اہم وزارت کے مسائل کا حل بھلا کیسے ممکن ہو؟ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر منتخب ہو کر اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کی لاعلمی کا یہ حال ہے کہ انھیں یہ تک بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آٹے دال کے بھاؤ کیا ہیں اور انھیں منتخب کرنے والے کن حالات میں گرفتار ہیں اور ان کے مسائل کیا ہیں واللہ کیا شان بے نیازی ہے اس پر ہمیں غالب کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا
مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ ناخواندہ تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ایک بہت بڑی سلطنت پر خوب حکمرانی کی۔ اس کامیابی کا راز یہ تھا کہ اس کے مشیر جو نورتن کہلاتے تھے علم و دانش کا پیکر تھے جن میں بیربل جیسا وزیر شامل تھا جو اپنا ثانی ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ٹیم میں عبدالرحیم خان خانہ جیسے صاحب سیف و قلم بھی شامل تھا جو رزم و بزم دونوں میں اپنی مثال آپ تھا۔ رحیم کے دوہے ہندی شاعری کا شاہکار شمار ہوتے ہیں اس کے علاوہ ابوالفضل اور فیضی جیسے دانشمند بھی اکبر کے نو رتنوں میں شامل تھے۔