مسئلہ اڑھائی برسوں کا نہیں ہے کہاس عرصہ میں حکومت نے دودھ اورشہد کی نہریں کیوں نہیں بہائیں۔ مسئلہ اب ڈھٹائی کا بن چکا ہے ہ موجودہ حکومت کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت دیانتدار پارسا لوگ ہیں اور باقی سب کرپشن کے کیچڑ میں گندے ہو چکے ہیں تو دور کہاں جانا، ڈسکہ کے حالیہ ضمنی الیکشن ہی دیکھ لیں۔ وہ تو یہ حکومت ٹھیک کروا نہیں سکی، بزدار صاحب پر کیا پہلے کم تنقید ہو رہی تھی جو انہوں نے ڈسکہ کے الیکشن میں ایک اور موقع دے دیا۔ مطلب آ بیل مجھے مار، ایک حلقے میں پر امن الیکشن کا انعقاد یقینی نہیں بن سکے پھر جب آئی جی اور چیف سیکرٹری تعاون نہ کر یں تو اس کو کیا سمجھا جائے، یہ الیکشن کمیشن نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ آئی جی اور چیف سیکرٹر ی نے تعاون نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سول ایڈمنسٹریشن کی نا اہلیت اور ناکامی نے پورے حلقے کا الیکشن مشکوک بنا دیا ہے۔ اب تو اس بات پر تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کس لیول پر الیکشن کو مینج کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور الیکشن کمیشن آرٹیکل 220 کے تحت آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ مریم نواز نے دھاندلی کا الزام ایجنسیز پر عائد کر دیا ہے لیکن راناثناء اللہ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا کوئی ثبوت نہیں ملا تو مریم بی بی کن ثبوتوں کی بات کر رہی ہیں یقیناً انہیں ثبوت سامنے لانے چاہئیں، ورنہ بے جا الزام لگا لگانے پر ان کے خلاف کارروائی ہو نی چاہیے۔
اب ذرا نوشہرہ والے الیکشن پر آجائیں، وہ بھی لگتا ہے کہ ایک مذاق ہوا ہے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک جو صوبائی کابینہ کے ممبر بھی تھے۔ انہوں نے پرویز خٹک کے اختلافات کی وجہ سے ن لیگ کا ساتھ دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ پی ٹی آئی اپنی ہی سیٹ ہار گئی۔ اب جب وزیراعظم پشاور جاتے ہیں، ان کو بتایا جاتا ہے کہ ن لیگ نے بڑے ٹیکنیکل طریقے سے دھاندلی کی ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ ن لیگ کے پی کے میں اتنی مضبوط کب سے ہو گئی؟ مطلب حکومت آپ کی ہے، حکومتی مشینری آپ کی ہے، اس سب کے باوجود اگر ن لیگ دھاندلی کرنے میں کامیاب ہو گئی پھر تو یہ آپ کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔
اب ذرا سینیٹ الیکشن میں اس حکومت کا حال دیکھ لیں کہ پارٹی کے اندر اختلافات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان سینیٹ کے انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں پیر کے روز پشاور پہنچے تو 20 ارکان اسمبلی نے عمران خان سے ملاقات ہی نہیں کی۔ ملاقات نہ کرنے والوں میں 14ایم این ایز اور 6 ایم پی ایز شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی صفوں میں زبردست انتشار دیکھنے میں آرہا ہے۔ اب یہ اختلافات پیسے کے بغیر بھی سینیٹ انتخابات میں اپنا رنگ دکھا سکتے ہیں۔
اب سندھ میں بھی معاملات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ فیصل واوڈا کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر وزیر اعظم آج بھی فیصل واوڈا کو بھی ٹکٹ دینے کے فیصلے پر قائم ہیں جبکہ گورنر عمران اسماعیل اور علی زیدی فیصل واوڈا کی جگہ کسی اور کو غاسینیٹر بنوانا چاہتے تھے، جو لکھ نہیں، کروڑ نہیں بلکہ ارب پتی ہیں۔ کیا واقعی پارٹی میں جمہوری طریقے سے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ میں تو یہ سوچ رہی ہوں۔
پھر سندھ سے ہی تحریک انصاف کے رہنمالیاقت جتوئی نے سندھ سے سیف اللہ ابڑو کی سینیٹ کا ٹکٹ 35کروڑ میں دینے کا الزام لگا یا ہے، جس کے جواب میں پارٹی نے انہیں شوکاز نوٹس بھیجا ہے، لیکن لیاقت جتوئی کہتے ہیں کہ وہ ثبوت عدالت میں پیش کریں گے۔ اب میرے لئے حیرا ن کن بات تو یہ ہے کہ عمران خان تو سینیٹ انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے، پیسے کا استعمال روکنے کے لئے اوپن بیلٹنگ کروانا چاہتے ہیں اور معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، لیکن دوسرے طرف پیسوں کے عوض ٹکٹ دینا چونکا دینے والا الزام ہے، جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
اب ذرا سوچیں لیاقت جتوئی صاحب کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ اور بھی لوگ ہیں جن کے سات مل کر وہ آج اپنے لائحہ عمل کاعلان کرینگے۔ مطلب پارٹی میں توڑ پھوڑ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور یقیناً پی ڈی ایم سینیٹ الیکشن میں حکومتی جماعت کے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرے گی اور ہو سکتا ہے کہ حکومت کو کوئی سرپرائز بھی مل جائے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کرکٹ کے کھیل اور سیاسی کھیل میں بہت فرق ہے۔ سیاسی کھیل، کھیل کر شاید انہیں پتہ چلا کہ ماضی میں وہ جتنا اخلاقیات کا سبق عوام کو پڑھا چکے ہیں۔ اور جو جو باتیں وہ کر چکے ہیں۔ وہ انہیں نہیں کرنی چاہیے تھیں، جو حفیظ شیخ پی پی کے دور میں وزیر خزانہ تھے اوروہ پیپلز پارٹی تو آج بھی عمران خان کے نزدیک کرپٹ ہے ا س کا مطلب یہ ہوا کہ حفیظ شیخ صاحب تو کرپٹ لوگوں کا حصہ تھے تو آج وہی حفیظ شیخ اگر آپ کی پارٹی کے ٹکٹ پر اپنے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف الیکشن لڑیں تو ٹھیک ہے۔
مان لیں کہ سیاست میں بالکل ویسے ہی کمپرومائز کرکے چلنا پڑتا ہے، جیسے ماضی میں زرداری اور نواز شریف نے کیا تھا۔ 3دہائیوں کی سیاسی جدو جہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کو بھی اپنے فیصلے پارٹی پر تھونپنے ہیں۔ چاہے وہ پنجاب کی حکمرانی ہو، چاہے فیصل واوڈا کو سینیٹ کا ٹکٹ دلوانا ہو، اور چاہے ماضی کے چوروں لٹیروں کو پارٹی میں شامل کرنا ہو، یو ٹرن بھی لینے پڑتے ہیں۔ پیسے والوں کو بھی ساتھ چلانا پڑتا ہے۔