پاکستان نے بھارتی ریاستی دہشتگردی کے ناقابل ِتردید ثبوت پیش کر کے ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ اور سفاک چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ اب، یہ عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کے مذموم مقاصد کانوٹس لے ؛آخر دنیا کب تک سوتی رہے گی؟ بھارتی ریاستی دہشتگردی کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بجا کہا کہ بھارت کی ایسی مذموم کارروائیوں کے بارے میں مزید خاموش رہنا، خطے اور خاص طور پرپاکستان کے مفاد میں نہیں۔ وزیرخارجہ کا یہ کہناکہ نائن الیون کے بعد دنیا نے دیکھا کہ پاکستان دہشت گرد ی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے، جس کا عالمی سطح پر اعتراف بھی کیا جاتا رہا ہے، جبکہ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ جب پاکستان عالمی امن کے لیے کوشش کررہا تھا تو بھارت، پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا جال بن رہا تھا۔ بھارت نے رواں ماہ( نومبر) میں بھی پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشتگردی کا منصوبہ بنایا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے جو ٹھوس شواہد پیش کئے ؛ ان کا کچھ حصہ پہلے بھی کسی نہ کسی انداز میں منظر عام پر آتا رہا ہے، جن میں اے پی ایس حملہ خاص طور پر قابل ِ ذکر ہے، جو 2014ء میں ہوااور اس حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت انہی دنوں سامنے آ گئے تھے۔ اب، ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ بتانا کہ اے پی ایس حملے کے بعد بھارتی قونصل خانے میں جشن منایا گیا، حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ اسی طرح پی سی ہوٹل گوادر کے حملے میں بھی بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد سامنے آ ئے تھے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کراچی پر حملے کو تو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔
پی سی ہوٹل گوادر اور اس حملے میں گہری مماثلت پائی گئی، اس سے یہ باآسانی اندازہ لگالیا گیاکہ اس حملے کی منصوبہ بندی بھی بھارت نے کی؛ اس کے علاوہ بلوچستان میں دہشت گردی کی، جو وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، ان میں بھی بھارت ملوث ہوتاہے، اس کا زندہ ثبوت بھارتی نیوی کا افسر کلبھوشن یادیو ہے، جو بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہنے کا اعتراف کر چکا ہے۔ اب تو اس کے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آ چکے کہ دہشت گردوں کو رقوم کہاں سے اور کیسے منتقل ہوئیں؟ وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے بہت اچھا کیاکہ قوم کے سامنے تما م شواہد رکھ دیئے، لہذا اب کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ پاکستان کے خلاف جو بھی کارروائیاں ہوتی ہیں، وہ سب بھارتی خفیہ ایجنسی " را" کی سر پرستی میں ہوتی ہیں۔
پاکستانی قوم کو تو اس بارے میں نہ پہلے شک تھا، نہ اب کوئی شک ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان ساری کارروائیوں کے منظرعام پر آنے کے بعد عالمی برادری کا ردعمل کیا اور کیسے سامنے آئے گا؟ بلاشبہ یہ اچھا اقدام کیا گیا کہ قومی میڈیا کے ذریعے بھارتی ریاستی دہشت گردی کی تمام تفصیلات، عوام کے سامنے رکھ دی گئیں اور ماہرین اس پر اپنی اپنی استعداد کے مطابق تجزیے اور تبصرے بھی کر رہے ہیں اور عالمی برادری سے اپیل بھی کر رہے ہیں کہ وہ بھارتی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نوٹس لے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا دنیا، پاکستانی میڈیا کے ذریعے بھارتی دہشت گردی کے شواہد سامنے آنے کے بعد متحرک ہو گی بھی یا نہیں؟ اور بھارت کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی یا پابندی کا سوچا بھی جائے گا یا نہیں؟
میرے خیال میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کاروبار بھارت میں چلتا ہے اوربھارت ایک بڑی عالمی منڈی ہے۔ اس کے باوجودبھارتی ریاستی دہشت گردی کو دنیا کسی صورت قبول نہیں کر سکتی، لہذا بھارتی مذموم مقاصدکو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے عالمی میڈیا تک رسائی ناگزیرہے؛ اس مقصد کے لیے سب تفصیلات و شواہد اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی ادارے کو فراہم کرنا ہوں گے؛دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارت خانوں کو متحرک کرنا ہو گا اور بھارتی دہشت گردی کے شواہد کو عام کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ دنیا کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف دو محاذوں پر جنگ شروع کر رکھی ہے؛ ایک جنگ لائن آف کنٹرول (ایل او سی )پر جاری ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز اکثر بلا اشتعال پاکستانی سرحدی علاقوں میں نہتے لوگوں کو نشانہ بناتی رہتی ہیں اوریہ محاذ ہر وقت کھلا رہتا ہے، اس محاذ پر جنگ میں کبھی تیزی آ جاتی ہے اور کبھی کمی، لیکن یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آتا۔
دوسری جنگ، بھارت نے دہشت گردی کی شکل میں پاکستان پر مسلط کر رکھی ہیاور دنیا کو اس کے پس منظر اور پیش منظر سے آگاہ کرنا لازم ہے، لہذا بھارت کے جارحانہ عزائم اور مذموم مقاصد کو عالمی برادری کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ پیش کرتے رہنا ہو گا اور اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر خارجہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں اور محض چند بیانات دینے سے عالمی برادری پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارتی انتہا پسند ہندوانہ ذہنیت کے رہنما، تقسیم کے بعد ہی سے پاکستان کیخلاف مصروف ہو گئے تھے اور ناصرف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے بھارت نے پاکستان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بْن کر پاکستان کو دولخت کیا اور مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی جیسی علیحدگی پسند تنظیم کو ہر طرح کی سپورٹ فراہم کر کے اسے بنگلہ دیش کی صورت میں پاکستان سے جدا کر دیا، جس پر اندراگاندھی نے اس کوبرصغیر پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لینے کے مترادف قرار دیا تھا۔ پاکستان کیخلاف بھارت کی سازشیں، تب سے اب تک جاری ہیں۔
غرض یہ کہ بھارت نے ہر اس موقع سے فائدہ اْٹھایا، جس کا مقصد پاکستان کو کمزور کر نا اور اسے نقصان پہنچانا تھا اور ساتھ ہی بھارت میں خود دہشتگردانہ کارروائیاں ( فالس فلیگ آپریشنز) کر کے اس کے الزامات پاکستان پر لگانا بھی بھارتی سرکار کا چلن رہا ہے۔ ماضی میں پاکستان صرف بھارتی الزامات کی تردید تک ہی محدود رہا، مگر اب، جبکہ بھارتی ریاستی دہشتگردی کی کارروائیاں انتہا سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہیں، توپاکستان پر لازم ہے کہ بھارتی ریاستی دہشتگردی کوثبوتوں کے ساتھ مسلسل بے نقاب کرتا رہے۔ اب وقت آ گیا ہے اور دنیا کو اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچنا ہو گا اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کو روکنا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ بھارت خطے کے لیے دہشت کی علامت بن جائے اور بہت دیر ہو جائے۔ آخر دنیا کب تک سوتی رہے گی؟