سینیٹ الیکشن کا شیڈول جاری ہوتے ہی ملک بھر میں جوڑ توڑ کی سیاست شروع ہو چکی ہے۔ ایک طرف اپوزیشن سرپرائز دینے کے دعوے کررہی ہے، تو دوسری جانب حکومت ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے تمام قانونی آپشنز بروئے کار لانے کی سعی میں ہے۔ اس دوران سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے کے معاملے پر سماعتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سپریم کور ٹ کی ایک حالیہ سماعت میں بہت اہم ریماکس سامنے آئے ہیں کہ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، قیامت تک ووٹ خفیہ رہنا آئین میں ہے، نہ عدالتی فیصلوں میں۔ متناسب نمائندگی کا کیا مطلب ہے؟ سیاسی جماعت کی سینیٹ میں نشستیں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں، الیکشن کمیشن متناسب نمائندگی کو کیسے یقینی بنائے گا؟ جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں، اتنی ملنی چاہئیں، کسی جماعت کو کم نشستیں ملیں تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا، صوبائی اسمبلی کے تناسب سے سینیٹ سیٹیں نہ ملیں، تو یہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی، ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی۔
ایک طرف سپریم کورٹ متناسب نمائندگی کے مطابق سینیٹ الیکشن کے شفاف نتائج چاہتی ہے، تو دوسری جانب زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ 11 مارچ کو سینیٹ کے 52 اراکین سبکدوش ہو رہے ہیں، جبکہ 3 مارچ 2021کو ہونے والے سینیٹ الیکشن میں مجموعی طور پر 48 سینیٹرز کا انتخاب عمل میں آئے گا، اگر سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کی بات کی جائے تو اس وقت سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے کل 14 اراکین ہیں، جن میں سے7 سبکدوش ہو رہے ہیں۔ رواں سال سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کو 21 سیٹیں جیتنے کی امید ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 28 ہو جائے گی، اگر پیپلزپارٹی کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے 21 میں سے8 سینیٹرز سبکدوش ہونے جا رہے ہیں، جس کے بعد سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے13 اراکین رہ جائیں گے، جبکہ اس سال پیپلز پارٹی6نشستیں جیت سکے گی، جس سے سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کی کل تعداد 19 ہو جائے گی، اگر ن لیگ کی سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کی بات کی جائے، تو ایوان بالا کی تنظیم نو میں سب سے زیادہ نقصان ن لیگ کو ہو گا، کیونکہ اس کے 29 سینیٹرز میں 17 سبکدوش ہو رہے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ن لیگ کے اراکین کی تعداد کے حساب سے اس سال ن لیگ 5 نشستیں حاصل کرسکے گی، جس سے سینیٹ میں اس کی قوت17رہ جائے گی، مگر سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے، سینیٹ میں نمبر گیم کے فارمولے کو حتمی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سینیٹ الیکشن 2021 میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اضافی نشست مل سکتی ہے اورکسی سیاسی جماعت کی نشست کم بھی ہو سکتی ہے۔ دو دن قبل میرے پروگرام" نائٹ ایڈیشن "میں سینٹر رحمان ملک نے سینیٹ کے سب سے بڑے مقابلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ذاتی تعلق کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے تمام ارکان یو سف رضا گیلانی کو ہی ووٹ دیں گے۔ اب جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے ارکان کے ووٹ پیپلزپارٹی خریدے گی یا ذاتی تعلق کی بنیاد پر ہی یہ ووٹ یو سف رضا گیلانی کو ڈالے جائیں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہارس ٹریڈنگ کو ذاتی تعلق قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں اب تک کتنے اپ سیٹ ہو چکے ہیں؟ اور ماضی میں ہارس ٹریڈنگ کے بدلے سینیٹ انتخابات کے بعد کیا حیران کن نتائج سامنے آتے رہے ہیں؟ سب جانتے ہیں سینیٹ الیکشن کے دوران ارکان کی خرید وفروخت کے سب سے زیادہ الزامات لگائے جاتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سینیٹرز منتخب ہونے کے لیے نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ یوں نوٹ کے بدلے ووٹ کے دھندے اور خفیہ رائے شماری سے ماضی میں کئی غیر متوقع نتائج سامنے آتے رہے ہیں۔ سینیٹ الیکشن میں سب سے بڑا اپ سیٹ2018 میں دیکھنے میں آیا، جسے موجودہ گورنر پنجاب چودھری سرور نے کیا۔ سینیٹ کی جنرل نشست پر چودھری سرورکو 34 ووٹ ملنے تھے، مگر غیر متوقع طور پر انہوں نے سب سے زیادہ44 ووٹ حاصل کر لیے۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں کئی لیگی ارکان نے ضمیر کا سودا کیا اورخفیہ رائے شماری میں اپنا وزن چودھری سرور کے پلڑے میں ڈال دیا اور ان کے مقابلے میں ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر زبیر گل الیکشن ہار گئے تھے۔۔ 2018 میں سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ہاتھ ہوا اور یہ ہاتھ سب پر بھاری، آصف علی زرداری نے کیا تھا اور ایم کیو ایم اپنے 2امیدواروں کی بجائے اپنے صرف ایک سینیٹر فروغ نسیم کو کامیاب کروا سکی تھی۔ سب جانتے تھے کہ پیپلز پارٹی اپنے صرف 9 ارکان کو دوبارہ منتخب کروا سکتی تھی، لیکن آصف علی زرداری نے ایسی سیاسی چال چلی کہ پیپلز پارٹی کے 10 امیدوار جیت گئے۔ 2018 میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو بھی سینیٹ الیکشن میں بڑادھچکا لگا تھا اور پی ٹی آئی اکثریت کے باوجود مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کر سکی تھی۔
پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی تعداد 7تھی، لیکن وہ 2نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر لڑنے والے جے یو آئی کے مولانا سمیع الحق کو غیر متوقع طور پر شکست ہوئی تھی اور ن لیگ کے دلاور خان نے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ 2018 ہی میں ہارس ٹریڈنگ کے الزام پر پی ٹی آئی نے اپنے 20 ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ بلوچستان کے سینیٹ الیکشن 2018 کی بات کی جائے، تو ن لیگ کو بلوچستان میں غیر متوقع شکست ہوئی تھی۔ 2015 کے سینیٹ الیکشن میں بھی ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سامنے آئے اور کئی اپ سیٹ ہوئے۔ قومی سیاست ان دنوں کئی الزامات کی زد میں ہے اور سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا شور برپا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سرپرائز دینے کی باتیں کر رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 3 مارچ 2021کو ہونے والے سینیٹ الیکشن میں کون کسے سرپرائز دے گا؟ کیونکہ نوٹ بمقابلہ ضمیر کا ووٹ ہے۔ دیکھیں کس کی جیت ہوتی ہے؟