دنیا میں کئی ضدی اور انا پرست حکمران گزرے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ ان حکمرانوں کی ضد اور انا ہی ان کی حکمرانی کے خاتمے کا سبب بنی ؛اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ضد اور انادونوں میں انسان کا نقصان ہے، تو غلط نہ ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ عقل دلیل مانگتی ہے، جبکہ ضد اور انا دونوں اندھی پیروی چاہتے ہیں، چاہے یہ پیروی نفس کی ہو یا کسی شخص کی ہو، یہ پیروی بغیر کسی دلیل کے ہوتی ہے، یعنی ضد اور انا ایسی بیماریوں کے نام ہیں، جو ہمیشہ انسانی شخصیت اور ذات کی تباہی کی بنتی ہیں۔ ضدی اور انا پرست افراد اپنی غلط دلیلوں اور جھوٹی باتوں سے دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جو کر رہے ہیں، وہ درست ہے اور باقی سب لوگ غلط ہیں۔ بالکل ایسے ہی نواز شریف کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق کام نہ ہونے پر اسے اپنی ضد اور انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، اْن کی ہاں میں ہاں میں ملاتے رہیں، تو سب اچھا، مگر جیسے ہی "بادشاہ سلامت"سے آپ نے اختلاف کیا، تو پھر آپ ناصرف قصور وار ٹھہرے، بلکہ سزا کے بھی مستحق ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب "سب سے پہلے پاکستان" میں لکھا ہے کہ میں نے بحیثیتِ آرمی چیف، نواز شریف سے حتی الامکان تعاون کرنے کی کوشش کی، میں ہمیشہ اْن سے دریافت کرتا رہتا تھا کہ فوج کس طرح اْن کی گرتی ہوئی حکومت کی مدد کر سکتی ہے؟ نواز شریف نے مجھ سے خراب حالت میں چلتی ہوئی سرکاری کارپوریشن واٹر اینڈپاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی(واپڈا) کو بحران سے نکالنے کے لیے مدد مانگی، میں نے یہ انتہائی مشکل کام قبول کیا اور پاک فوج نے اپنے 36000 جوانوں کی مدد سے واپڈا کا نظم و نسق سنبھال کے اسے تباہی سے بچا یا، پھر نواز شریف نے مجھ سے عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کہا، کیونکہ عدلیہ میں ان دنوں فرقہ وارانہ اور دہشت گردی کے کئی مقدمات پیش ہوتے تھے۔ میں نے فوراً اس کی بھی حامی بھر لی۔ ہم نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے کئی فوجی عدالتیں قائم کیں، لیکن اس قسم کے تعاون کے باوجود روزِ اوّل سے ہی کچھ معاملات پر ہمارے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور میرے افواج پاکستان کا سربراہ بننے کے چند دنوں کے اندر اندر نواز شریف نے دو میجر جنرلوں اور اْن کی وفا داری کے خلاف انتہائی سخت باتیں کیں اور مجھ سے کہا کہ میں اْن دونوں کو فوراً سبکدوش کر دوں۔ میرے لیے یہ بہت ہی عجیب تھا۔ میں نے کہا کہ باقاعدہ چارج شیٹ، الزامات کی تفصیلات اور افسروں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیے بغیر میں ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا، لیکن نواز شریف اپنی ضد پر اصرار کرتے رہے، لیکن میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا، پھر مجھے "فرائیڈے ٹائمز" کے مدیر نجم سیٹھی، جنھیں نواز شریف کے حکم پر گرفتار کیا گیا تھا اور مجھے کہا گیا کہ نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ پہلے تو میں ہنس دیا اور سمجھا کہ نواز شریف مذاق کر رہے ہیں، لیکن بطور ِ وزیر اعظم، انھوں نے اپنا کام پورا کیا ہوا تھا۔ انھوں نے کہاکہ قانوناً غداری کے الزامات میں کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ تجویز تھی، جس سے مجھے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کے ناقابل ِ اعتبار ہونے کا احساس ہوا، لیکن اس پر بھی میں نے صاف انکار کر دیا اور بعد ازاں نجم سیٹھی کو رہا کر دیا گیا۔ شاید میرے ان دو ٹوک جوابات نے نو از شریف کو، یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو کہ انھوں نے مجھے افواج ِ پاکستان کا سربراہ بنا کر غلطی کی ہے اور پھر کارگل کا واقعہ اختلافات کی بڑی وجہ بنا اور نواز شریف نے شاید یہ سوچا کہ وہ کارگل کے معاملات کا علم نہ ہونے کا دعویٰ کر کے خود محفوظ ہو جائیں گے۔
کتاب "سب سے پہلے پاکستان" سے مذکورہ واقعات بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ شاید نواز شریف آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ان کی مرضی اور مفادات کے مطابق ہونا چاہیے۔ جب وہ چاہیں، پاک فوج مشکل میں اْن کی مدد کرے، جیسے واپڈا کو چلانے میں مدد کی، جیسے عدلیہ کے حوالے سے مدد کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھیں اقتدار نصیب نہ ہوا تو وہ اپنے جلسوں اور جلوسوں میں یہ تکرار کرنے لگے کہ مجھے کیوں نکالا؟ اور اپنی خامیوں کو سمجھے بغیر اپنی ضد اور انا کا شکار ہو کرنواز شریف یہ کہنے لگے کہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ نے کروایا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ سیاست انا اور ضد پر نہیں چلتی۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف مال روڈ، لاہور پر جو جلسہ ہوا، سب نے دیکھا کہ مریم نواز اْس جلسے میں شریک نہیں ہوئیں۔ کیانواز شریف کی طرف سے مریم نوازکو اس جلسے میں جانے سے منع کیا گیا تھا؟ ۔
سچ تو یہ ہے نواز شریف آج بھی انا اور ضد کی سیاست ہی کر رہے ہیں۔ مبصرین کے بقول ؛ نواز شریف نے 9 مہینے بعد اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانات دینا اس لیے شروع کر رکھے ہیں کہ مریم کو باہر ( لندن) بلوانے کے لیے اْن کی خواہش پوری نہیں کی، جس سے اْن کی انا اور ضد کو ضرب لگی ہے۔ شاید نواز شریف مکمل مایوس ہو چکے ہیں، اسی لیے جارحیت پر اترآئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام کیوں نواز شریف پر اعتبار کریں؟ کیونکہ آپ تو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ڈیل کر کے جدہ چلے جاتے ہیں اور عوام کو تب تک دھوکے میں رکھتے ہیں جب تک سعودی شہزادہ پاکستان آکرآپ کی ڈیل (معاہدے کی دستاویزات) ایک پریس کانفرنس میں نہیں دکھاتا۔ بات دراصل یہ ہے کہ نواز شریف کو سیاست کرنے سے کسی نے نہیں روکا۔ صرف ایک گذارش ہے کہ سیاست ضرور کیجیے، مگر اس ملک کے مفاد میں، اس ملک کے عوام کے مفاد میں، ناکہ اپنے خاندان کے مفاد میں سیاست کریں۔ آج بھی ضد اور انا ہی نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ(ن) کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
یہ بالکل درست ہے کہ آج وطن عزیزمیں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہیں۔ موجودہ حکومت میں بھی بہت سی خامیاں ہیں۔ بہت سے اداروں میں اصلاحات ناگزیر ہیں، لیکن ان تمام حالات میں اگر ملک کے سیاست دان، ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عقل، فہم و فراست اور ہوش مندی سے کام لینا ہو گا، وگرنہ ضد اور انا کے دریا میں سب کچھ بہہ جائے گا۔