رسول کریمﷺ بیت اﷲ کا طواف کررہے تھے، ایک جگہ رکے اور کعبہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا "اے کعبہ! تیری حرمت بہت زیادہ ہے لیکن اﷲ کے نزدیک ایک مسلمان کے خون کی حرمت تیری حرمت سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔"
17ستمبر کو رات 9بجے دیر لوئر کے طور منگ گاؤں میں ایک جنازے کے دوران اندھا دھند فائرنگ کرکے آٹھ انسانوں کو بے دردی اور وحشیانہ طریقے سے قتل اور ڈیڑھ درجن کے قریب لوگوں کو شدید زخمی کردیا گیا۔ میں 19ستمبر کو تعزیت کے لیے اس گاؤں پہنچا تو جنازگاہ میں مقتولین کے جوتے اور کچھ خون آلود کپڑے موجود تھے، ہر طرف انسانی خون بکھرااور جما ہوا تھا۔
میں ورثا سے ملا، تعزیت اور دعا کی۔ کچھ مقتولین کے معصوم یتیم بچے میرے پاس بیٹھے تھے اور مجمع میں اپنے اپنے والد کو تلاش کررہے تھے۔ میرا دل بھر آیا اور میں سوچنے لگا کہ ان معصوم بچوں کا کیا گناہ تھا کہ ان کے سروں سے باپ کا سایہ چھین لیا گیا۔
ابھی ہم 20ستمبر کو واپس آرہے تھے، راستے میں اطلاع ملی کہ دیر بالا کے گاؤں براول میں ایک چھوٹے سے حجرے یعنی ڈیرے میں 11لاشوں کا ڈھیر لگادیا گیا۔ بیس کے قریب لوگ زخمی ہوگئے، خون میں لت پت لوگ تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہے تھے۔ اسی طرح کراچی جیسے شہر میں 14اگست کے تاریخی دن شادی پر جاتے ہوئے ایک خاندان کو نشانہ بنایا گیا اور مزدا وین میں بم پھینک کر 13انسانوں کو بارود میں جلادیا گیا۔ مرنے والوں میں سات خواتین اور چھ بچے تھے۔
پورا خاندان ختم ہوگیا۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے علاقے مچھ میں دس مزدوروں کو گولیاں مار کر پہلے قتل کیا گیا اور پھر ان کی گردنیں جسموں سے الگ کردی گئیں۔ اس طرح کے واقعات کا تسلسل ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آرہا، ایک کے بعد دوسرا اور پھر دوسرے کے بعد تیسرا سانحہ ہوتا ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں قتل و غارت گری کا نیا دلدوز سانحہ نہ ہوتا ہو، ہر نیا سانحہ سفاکیت میں پہلے سے اتنا بھیانک ہوتا ہے کہ پرانا واقعہ بھول جاتا ہے۔
ہمارا معاشرہ مسلمانوں کاہے، جو حضورﷺ سے محبت کرنے والوں کا معاشرہ ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ کی طرف سے اعلان ہے کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے، اسی طرح ایک انسان کی زندگی بچانے کے عمل کو ایسا قراردیا گیا ہے جیسے پوری انسانیت کو بچایا ہو۔ اسلامی معاشرے میں انسانی خون کی ارزانی کیوں ہے؟ قاتل کو معلوم نہیں کہ وہ قتل کیوں کررہا ہے اور مقتول یہ نہیں جانتا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا جارہاہے؟
یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں قانون کی گرفت کمزور ہے۔ رشوت، سفارش یا طاقتور وکیل ہو تو ضمانت میں دیر نہیں لگتی۔ افسو س کی بات ہے کہ پاکستان میں اﷲ کے قانون کا نفاذ نہیں، اگر ایسا ہوتا توعوام کے جان و مال اور عزت مکمل محفوظ ہوتے۔ قانون کی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے اب ہمارے جنازے محفوظ ہیں نہ مساجد، مدارس، حجرے، جرگے، ڈیرے اور پنچایتیں محفوظ ہیں۔
ملک میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ قتل کے واقعات میں گزشتہ سالوں کی نسبت 30فیصد اضافہ ہوا ہے، شہر اقتدار کے ساتھ جڑے ہوئے راولپنڈی جیسے شہر میں گزشتہ سال میں جتنے قتل ہوئے تھے اس سال صرف چھ ماہ میں اس سے زیادہ قتل کے واقعات ہوئے ہیں۔ جرائم خاص طور پر قتل، اغواء اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ایک المیہ ہے۔
عدم تحفظ کی وجہ سے عوام میں ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔ اب تو ہمارے بچے اور بچیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اسکول اور مسجد جاتے ہوئے بچوں کو اغواء کرلیا جاتا ہے اور زیادتی کے بعد بے دردی اور سفاکیت سے بچوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ بدترین درندگی اور حیوانیت ہے جس کو روکنے کے لیے آخری حد تک جانا ہوگا۔
ہم نے زینب الرٹ بل کے موقع پر تجویز پیش کی تھی کہ بچوں سے زیادتی اور قتل پر مجرم کو پھانسی کی سزا ہونی چاہیے، دوچار درندوں کو لٹکا دیا جاتا تو ہمارے پھولوں جیسے معصوم بچے محفوظ ہوجاتے مگر حکومت نے ہماری یہ تجویز تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات کے بجائے کارکردگی کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں گے۔ اب تو وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں، پولیس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور کے پی کے ہر ضلع میں قریبا 6000ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں جو جدید ترین اسلحے سے لیس ہیں، انھیں ہر طرح کی جدید سہولیات بھی میسر ہیں، لیکن اس کے باوجود جرائم میں کمی آنے کے بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
دیر پائین اور دیر بالاکے متاثرہ خاندانوں کے غم میں پوری سوسائٹی شریک ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ دونوں اضلاع کے افراد پر مشتمل 40رکنی ایک جرگہ بنایا گیا ہے جس نے متحارب قبائل میں جاری لڑائی عارضی طور پرر کوا دی ہے۔
انھوں نے طے کیا ہے کہ کھلے عام اسلحہ لے کر گھومنے پر سخت پابندی ہوگی اور اسی طرح شادیوں اور دیگر تقریبات میں اسلحہ کی نمائش سختی سے ممنوع ہوگی، راستوں میں کوئی ایک دوسرے پر وار نہیں کرے گا۔ لیکن یہ عارضی اقدامات ہیں، اصل حل یہ ہے کہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے، مجرموں کی پشت پناہی نہ ہو، جن وجوہات کی بناپر لوگوں کے درمیان نفرتیں اور دشمنیا ں پیدا ہوتی ہیں ان کو ختم کیا جائے۔ اراضی اور قتل کے مقدمات کے جلد فیصلے ہوں۔ یہ مقدمات سال ہا سال چلتے ہیں، جوان بوڑھے اور بوڑھے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں مگر مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا۔
ہم مدینہ کی جس اسلامی ریاست کی بات کرتے ہیں اس میں تو ایک جانور کی جان کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کے متعلق بھی مجھ سے پوچھا جائے گا۔
علماء کرام سے اپیل ہے کہ وہ اپنے خطابات بالخصوص خطبات جمعہ میں انسانی جان کی حرمت اور حفاظت کو اپنا موضوع بنائیں، اصلاح معاشرہ کی ذمے داری بلاشبہ سب سے زیادہ علماء کرام ہی کی ہے۔ معاشرے میں جرائم کے سدباب کے لیے دنیا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس دلوں میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم اور دیگر وزرا اقتدار میں آنے سے پہلے اپنے بیانات میں اکثرکہتے تھے کہ جب کسی مقتول کے قاتل پکڑے نہیں جاتے، تو سمجھ لیں اس کے قاتل حکمران ہیں، اب ان کی حکومت میں ہرروز درجنوں قتل ہورہے ہیں، انھیں چاہیے کہ کبھی کبھار اپنے سابقہ بیانات کو نکال کر سن اور دیکھ لیا کریں۔