اسی کی دہائی کے وسط میں مسلم لیگ ن کے خدوخال ابھرنے، تشکیل پانے اور متشکل ہونے شروع ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی بغل سے نکلتے ننھے ننھے پاؤں پالنے سے باہر نکلتے ہی مضبوطی سے جمہوریت والے دائرے میں داخل ہوگئے پاکستانی سیاست کے ٹرائینگل میں اب باری بھی جمہوریت کی تھی اسٹیبلشمنٹ، سیمی جمہوریت کمزور پارٹیز مکس نظام اور بالآخر انتخابات (جیسے بھی سہی) کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کو للکارتی سداسے نظریاتی ہونے کی دعوے دار جماعت اگلے مدارج پر تھی....
پرورش کے تیس سال جسے مخالف جماعتیں منفی لیتی ہیں میرے حساب میں مثبت پہلو اس لیے ہے کہ جنرنیلی حکومت رائیونڈ میں مذہبی عنصر کے ساتھ بننے والی جماعت کے باقاعدہ خدوخال سے وردی کے اثرات پھیکے کرنے کےلئے تین دہائیاں ضروری تھیں۔
اب جاکر اگر پی ایم ایل این مکمل جمہوریت کا نعرہ لگارہی ہے تو پی پی پی کا ساتھ مزید لوگوں کو اپنا حافظہ اور یادداشت کمزورہونے پر دلالت کررہا ہے کہ دونوں جماعتوں کی ابتدا میں جرنیلوں سے تعلق خاطر ہی حرف اول رہا ہے گو کہ صرف آخر اور سہی تاجر برادری میں بننے والی یہ جماعت مذہبی خدوخال لیے محض نادانستگی کاشاخسانہ نہیں تھی بلکہ شعوری بندوبست تھا.... پوری صنعت و حرفت وتجارت میں مذہبی لباس (ڈریس کوڈ) مکمل مسلمان گھرانوں کے اطوار نے پاکستان خصوصاً پنجاب کے درمیانے طبقے کو بہت متاثر کیا کہ معاشرت، مذہب، روایت درمیانے درجے کے لوگوں کا مسئلہ ہے۔
میلادیں، مساجد میں میاں شریف کا نمازیوں کے گلے میں گلاب کے ہارڈالنا جمعہ کے بعد بیٹھک میں ملاقات کرنا مصافحہ اور خیرخیرات یہ وہ پیکیج تھا جس نے پی پی پی کے جارحانہ اندازمیں کافی دراڑیں ڈالیں ....
جنرل ضیاءنے جس طرح ماڈرن ازم کا خاتمہ پھانسی لگا کر کیا تھا وہ محض ایک ماڈریٹ شخص کی پھانسی نہیں تھی وہ پوری انگریزی زدہ ماڈلکاڈبیل باٹم لمبے بال اور ہپی ازم کلچر کا خاتمہ تھا ....
پی پی پی جسے لوگ پیو پلاؤ پارٹی بھی کہتے تھے یکے بعددیگرے لیڈرز کھوچکی تھی جس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ماڈرن اپروچ بھی وجہ تھی ....اب اپنے اپنے خدوخال سمیت پاکستان میں دوسیاسی پارٹیز ایک دوسرے سے نبردآزما تھیں .... پی پی پی کو سیاسی سطح پر تین غیر طبعی اموات کے نتیجے میں میتیں مل چکی تھی بھٹو اور محترمہ بے نظیر تو مکمل طورپر سیاسی شہید ٹھہرے جبکہ مرتضیٰ بھٹو سیمی سیاسی اور شاہنواز کی دیگر موت نے جو تفاخر پی پی پی کودیا اس کے بھی سانجھے داری پر لڑائی ہے جس کے اصلی حقدار بطریق وراثت مرتضیٰ کا خاندان خود کو سمجھتا مگر وراثتی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہواہے کہ کوئی داماد نوٹوں اور ووٹوں کی پوری وراثت لے اُڑا ....گو کہ میں ہمیشہ کہتی اور لکھتی ہوں کہ زرداری بُرے آدمیوں میں بڑا آدمی ہے، بہرطور "نانکے ورثہ" سیاسی وراثت نواسے بلاول تک پہنچ چکی ہے، ادھر مسلم لیگ ن میاں شریف کے نامزد میاں نواز شریف معاون شہباز شریف اور نسل نوسے حمزہ تک خوب سفرکررہی تھی مذہبی تہذیبی خدوخال میں خالصتاً مردانہ جماعت کو پی پی پی کی ماڈریٹ جماعت کا کمپلیکس درپردہ زندہ تھا.... جو شاید بھٹو صاحب کے بیٹی کو اہمیت دینے اور وزیراعظم بننے تلک ماڈرن اپروچ کے مزید مدارج طے کرچکا تھا ....
مسلم لیگ ن کی پریس کانفرنس ودیگر تقاریب میں کاٹن کے جوڑے راڈوگھڑیاں پیجارو لینڈ کروزر سیاسی مافیا اس قدر نمایاں تھے کہ آخری دہائی تلک ہم خواتین اگر سامنے بھی بیٹھی ہوتیں میاں نواز شریف معزز حضرات کہہ کر ہی خطاب شروع کرتے جس پر ہم نے باضابطہ احتجاج بھی شروع کردیا تھا جب شرکاءسے نعرہ لگتا خواتین کو بھی مخاطب کریں تو مسلم لیگی رہنماؤں میں میاں شہباز شریف نے معزز خواتین بھی کہنا شروع کیا یعنی عملاً شہباز شریف خواتین کو توقیر اور حیثیت دے رہے تھے 8مارچ ایسا شاندار منایا جاتا اور ایسے قوانین ومحکمے عمل میں لائے جاتے کہ روح سرشار ہوجاتی مگر سوسنار کی ایک لوہار کی کے مصداق نواز شریف نے ایک ہی جھٹکے سے پورا مسلم لیگی مردانہ تہذیبی معاشرتی کلچر تبدیل کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی مریم نواز کو لانچ کردیا جس نے پی پی پی کے تفاخر میں بھی کیل ٹھونکا اور بظاہر خواتین علمبردار میاں شہباز شریف کو بھی ہلاکر رکھ دیا یہ وراثت تو ایسی "کپتی" چیز ہے کہ خاندان کے ہم پلہ مردوں کو بھی برداشت نہیں کرتی دامادوں کو بھی وظیفے پر ٹرخاکر رکھتی ہے سب دامادوں کی قسمت زرداری جیسی نہیں ہوتی بعض کی قسمت میں محض چوکیداری ہی ہوتی ہے اور ان کا اس نوکری پر قانع رہنا ہی غنیمت ہے یعنی سکون انسان کے اپنے اندر ہی موجود ہے یہ Insideمسئلہ ہے۔
حالات ایسی کروٹ بدلے کہ تیسری جماعت PTI (جس پر علیحدہ کالم متقاضی ہے) نے وہ اٹھان لی کہ دونوں گزشتہ جماعتوں کی ساتھ کھڑے ہوتے ہی بنی.... بزرگ کے طورپر مولانا فضل الرحمان سہی بہرطور تیسری سوتن نے پہلی والی دوکو متحد کردیا (بظاہر) اب ایک ایسا "سنگھنا" قالین دونوں پارٹیوں کے اختلاف پرڈال دیا گیا کہ جس کی درزوں اور ادھڑے ہوئے حصوں سے اختلاف پھوٹ پھوٹ کر اُگتے اور مسلتے رہتے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کا ایک جیسا نکتہ آغاز ہونے کے باوجود تیسری نسل کا جمہوریت پسند ہونے کا نعرہ گوارہ تو ہوسکتا ہے مگر تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اگر لاشوں جلاوطنیوں کو فخر بنانے کے بجائے پائیدار انتخابی نظام مضبوط خودکار ادارے اور جدید ترین سائنس وترقی سے لیس کارہائے نمایاں کو فخر بنایا جاتا تو بات بھی تھی عوام بھی اس فخر میں ہمراہ ہوتے، مگر ذاتی اموات کا دکھ تو ہرخاندان کا اپنا اپنا ہوتا ہے امیر وکبیر کے مرنے کا دکھ اور جس کے کفن دفن کے لیے پیسے اکٹھے کرنا پڑیں اس کا دکھ اور اندازہ کا ہوتا ہے۔
موجودہ مسلم لیگ ن میں اس وقت قیادت کا بھونچال آیا ہوا ہے صحت ودیگر مسائل میں آٹے میاں نواز شریف لندن بیٹھے ہیں کہ وطن عزیز میں ان کے ایئرپورٹ پر ہی قید کے ساماں موجود رہتے ہیں ورنہ میاں نواز شریف جیسے طبع کے لوگ تو لاہورچھوڑ کر اسلام آباد نہ جانے کس مشکل میں رہتے تھے پکے لاہوریئے ہیں ان کا اپنی ثقافت سے دوررہنا موٹروے پر ڈرائیووڈھولکی پر گنگنانا لاہوری کھانے اور پورا خاندانی نظام انہیں ایک دن نہ وطن سے باہر رکھتا اگر وہ وطن سے باہر کبھی شوق سے گئے تو بغرض عبادت حجاز مقدس گئے رشتوں میں گندھاشخص آج ادھورے بچے رشتوں میں بھی مستحکم ہے تو صرف اپنی ایمانی قوت سے اس درجہ منفی پراپیگنڈہ، محبوب بیوی کی تکلیف دہ رحلت ماں کا چلے جانا پسندیدہ بھائی کی اسیری دنیا بھر کی اختلافی خبریں بیٹی کی اسیری اور تن تنہا مقابلہ اس شخص کو توڑ نہیں سکا 25دسمبر کو پیدا ہونے والا شخص کیسے کمزور ہوسکتا ہے دوشعر میاں نواز شریف کےلئے
نا خوشی ہے مگر ملال نہیں
یہ شکستہ دلی زوال نہیں
وہ مرا دل تو توڑسکتا ہے
توڑ دے مجھ کو یہ محال نہیں
جو کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک دراصل میاں نواز شریف ہی کا ہے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں شخصیت میاں شہباز شریف کی طرح بے حد متحرک ہی ہو نظرآتے کارنامے بھی ہوں مگر بڑے قدم اٹھانے کی صلاحیت میاں نواز شریف میں ہے ان کی اس درجہ مخالفت خود گواہ ہے کہ ان کا کیا قدکاٹھ ہے۔
چھوٹے قدکاٹھ کی مثال آج پنجاب کے سامنے ہے جس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر بھی اہل دل ہنس دیتے ہیں حکومت دہائیوں کی اور اختلاف صدیوں کا .... یہی ہے پہچان بڑے بندے کی....