بہت سے علم ناشناس پی ایچ ڈی ہولڈرز کو دس دس ہزار تنخواہ میں الاؤنس لیتے دیکھ کر جی میں دھن سمائی کے بھاگتے دوڑتے ہم بھی پی ایچ ڈی کرلیں گو کہ فہم و دانش کو ڈگریوں اور رٹے رٹائے نوٹس میں تول کر نصابی باتیں اور بیزار چہرے بنا کر تنقیدی اظہار کرنے کو طبیعت کبھی بھی مائل نہ تھی۔ فہم، استعداد، دانشWild ہوتی ہیں زمانے اور تجربے کی آمیزش ان میں ایک خاص طرح کی Wisdom کا اضافہ کردیتی ہے جبکہ اداکاروں، درسگاہوں اور سیمینار زدہ اپروچ اس قدرتی صلاحیت کو مصنوعی اور محدود بیرئیرز کے اندر لے جاتی ہے۔ مجھے بیرئیر زدہ سوچ نے کبھی متاثر نہیں کیا میں ہمیشہ لا محدود کی تمنا میں محوِ سفر رہی ہوں۔
محترم مجید نظامی بھی ایک ایسے ہی بحر بے کراں ہیں جنہیں خود رو جنگلوں کو تراش کر راستہ بنانا آتا ہے جو اخبار کا سفر اخبار بدوش ہوکر ملکیت صحافت تلک پہنچانا بخوبی جانتے ہیں۔ یہ تقریب کی سعادت تھی کہ مجید نظامی اس کے مہمان ہوئے۔
پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ ہال میں آبروئے صحافت جناب مجید نظامی کو پی ایچ ڈی ڈگری بامشرف کرنے کا اہتمام تھا ان کی صاحبزادی رمیزہ مجید نظامی کے علاوہ شہر سخن کے تمام نابغائے روزگار اس تقریب کا حصہ تھے۔ سیاست و ادب تعلیم و حکمت تمام شخصیات اپنی اپنی جگہ مکمل حیثیت و احترام کی حامل تھیں مگر مجید نظامی نے محض اپنے دو تین دوستوں کو خود پر کلام کرنے کی سعادت بخشی۔ کرنل ریٹائرڈ سید امجد حسین جن کے حوالے سے نظامی صاحب نے بتایا کہ حمید نظامی صاحب کے دوست ہیں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور زندہ مثالوں میں ایک قیمتی نگینہ ہیں۔ کرنل صاحب کو چارپانچ افراد بمشکل سہارا دیکر ڈائس تک لائے اور جب تک وہ محو گفتگو رہے ایک ملازم جو سنِ پیری میں موصوف کرنل صاحب سے کچھ ہی کم عمر ہوگا مسلسل انہیں پشت پر دونوں ہاتھوں کے سہارے سے کھڑے رکھنے پر مامور تھا۔ مبادا کرنل صاحب گر جاتے تو ملازم کا کیا ہوتا یہ الگ دھڑکا تھا مگر جب کرنل صاحب نے بتایا کہ وہ 1934ءمیں گیارہویں جماعت کے طالب علم تھے، ساتھ ہی یہ بھی منکشف ہوگیا کہ محترم نوے کے تو کم از کم ہیں کوئی خاتون ہوتی تو سن کا ہیر پھیر کردیتی مگر کرنل صاحب قائداعظم اور علامہ اقبال کی باتیں یوں سنا رہے تھے جیسے کوئی گلی محلے کے دوستوں کی سناتا ہے " اقبال نے کہا یہ لڑکے کون ہیں؟ تو فلاں نے یہ جواب دیا" قائداعظم کا یہ جواب اور ہمارا یہ سوال گویا 47ءسے قبل کا زمانہ آنکھوں کے سامنے تھا جس میں بڑے بڑے اکابرین کی گفتگو اور کرنل صاحب کا بیان تصویر کشی کرتا چلا جارہا تھا۔
ہم سب کو یہ خواہش ہوئی کہ مجاہد کامران جو ہمیشہ منفرد تقاریب کا اہتمام کرتے رہتے ہیں کیوں نہ کرنل صاحب ایسی تاریخ ساز شخصیت کے ساتھ بھی پروگرام کریں۔ محترم مجیب الرحمن شامی نے بھی اپنی تقریر میں اس خواہش کا اظہار کیا اور مجاہد کامران صاحب کے بارے میں جب یہ جملہ کہا کہ یہ بھی درسِ نظامی سے فارغ التحصیل ہیں تو ہال سے آواز آئی اچھا ہم تو امریکہ سے سمجھتے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مجاہد کامران کی امریکی سیاست اور معاشی صورتحال پر گہری نظر ہونے کے علاوہ امریکی اقتصادی پالیسی سے آگاہی بھی کمال کی ہے۔ تیسری تقدیر بھی نظامی صاحب کے قریبی دوست کی تھی ہال میں تشریف فرما محترمہ بشریٰ رحمن کا خیال تھا کہ خواتین کی نمائندگی بھی ہونی چاہئے اس میں کوئی شک نہیں اخبار میں خواتین کے کالم مردوں کے کالموں کے مقابل میرٹ پر خاصی تعداد میں چھپتے ہیں جو محترم مجید نظامی اور رمیزہ نظامی کی روشن خیالی کی دلیل بھی ہیں اور ان اخبارات کیلئے پیغام بھی جہاں نیوز پیج پر محض مردوں کے کالم لگتے ہیں۔
چائے کے موقع پر میں نے نظامی صاحب اور ان کی صاحبزادی کو مبارک پیش کی جہاں شعیب بن عزیز، جناب عطاءالرحمن، ڈاکٹر اجمل نیازی، راشد قریشی، سابق وزیر تعلیم عمران مسعود، جہانگیربدر، صیغم قادری، افتخار ملک، بشریٰ رحمن، فوزیہ تبسم، شاہد آغا و دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ ہال میں بزرگوں کی اکثریت اور باریش بزرگو اور صحافیوں کی تعداد دیکھ کر میری دوست نے مجھے میرا ہی فقرہ یاد دلایا جو میں نے نظامی صاحب کے آفس کے ایک وزٹ کے موقع پر برسوں پہلے کہا تھا کہ " اس دفتر کے تو لڑکے بھی ساٹھ برس سے کم نہیں ہوتے آج میں دیکھ رہی تھی کہ ساٹھ برس والے اور بھی آگے نکل چکے تھے اور عہد پیری کو شکست دینے والے بزرگ ماشاءاللہ نوخیز لڑکوں کی طرح بھاگے دوڑے پھر رہے تھے جیسے کرنل اکرام اللہ بوائے سکاؤٹس کی طرح مسلسل ہال میں سیڑھیاں اتر چڑھ کر کبھی دیوار کےساتھ ہاتھ باندھے ہوجاتے تو کبھی دوسروں کو بٹھا کر خود جونیئرز کی طرح مودب کونے میں کھڑے ہوجاتے۔ نظامی صاحب ان کی موجودگی میں کرنل اکرام اللہ کا اپنی تقریر میں کوئی نہ کوئی حوالہ دیدیا کرتے ہیں مگر اب کے اتنی بھاگ دوڑ کے باوجود انہیں نظر انداز کرگئے البتہ کرنل کے بارے میں کہا کہ " لو یہ تو سو ہی گئے "۔ مقررین بھی بڑے بے رحم ہوتے ہیں ہمیشہ نظامی صاحب کے تین مرتبہ کے بائی پاس کے باوجود بچ جانے پر حیرت کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ رواج ہے جب بھی کسی کی عیادت کو جائیں تو پوچھتے ہیں "سنا ہے دل کا دورہ پڑا آپ کو؟ " مریض ہاں میں جواب دیدے تو فوراً کہتے ہیں اچھا "دوجے وچ تے کوئی بچ دا نئیں " نظامی صاحب بیماری و شفا کو رضا و قبولیت کے معاملات سمجھ کر مطمئن رہتے ہیں جو بات انہیں منفردبناتی ہے وہ بیک وقت سنجیدگی اور نہایت زیرک حسِ لطافت کا یکساں اظہار ہے۔ تقریر کے آخر میں انہوں نے کہا کہ مجھے ہمیشہ میری عدم موجودگی میں ایوارڈز دئیے گئے۔ لہٰذا مجھے شکریہ ادا کرنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی مگر یہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایسی حیثیت رکھتی ہے کہ مجھے شکریہ ادا کرتے ہی بنے گی۔ ابھی تک نظامی صاحب کی خرابی صحت اور مریض دل ہونے پر باتیں ہورہی تھیں مگر اختتام تک نظامی صاحب ڈاکٹر بن چکے تھے یعنی مسیحائی کی منزلوں کو خود ہی پہنچ چکے تھے۔ جناب محترم عطاءالرحمن بھی ڈاکٹر اور پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کے شگفتہ چٹکلے سنا رہے تھے۔ تقریب کی خوش کن بات یہ تھی کہ سبھی نے پہلی مرتبہ صحافت کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملتے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا کہ اب تک ناخوش کن حالات میں اور طرح کی ڈگریوں ہی سے نوازا جاتا رہا ہے۔ مجھے اچھا یہ لگا کہ یونیورسٹیوں سے آٹھ، آٹھ سال میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لیکر اس پر دو فقرے نہ بول سکنے والوں کی نسبت یہ ڈگری ایسی قابل عزت شخصیات کو دینا ہی درحقیقت ڈگری کی عزت افرائی ہے۔