دنیا بدل رہی ہے۔ دو دہائیوں تک اپنی پوری عسکری قوت کو آزمانے کے بعد امریکی افغانستان سے پسپاہورہے ہیں۔ مجھے کریمٹ روز ویلٹ یاد آرہا ہے۔ جس نے "چینچ دی ورلڈ نامی" منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، جس کے تحت اس نے ایران میں ڈاکٹر مصدق کو ہٹا کر تمام اختیارات شاہ ایران کے حوالے کرنے تھے۔ پھر تاریخ نے دنیا کو ادھر سے اْدھر ہوتے دیکھا۔ وہ مصدق جو اسلامی دنیا میں امام کعبہ جتنی عزت و توقیر کا مالک بنتا جارہا تھا۔ ایران کی گلیوں میں رسوا ہوا۔ چوراہوں پر اس کی تصویروں کو جوتوں کے ہار پہنائے گئے۔ جب کریمٹ اپنے مشن کی کامیابی کے بعد واپس واشنگٹن پہنچا تو "چینج دی ورلڈ کی فائل پر "دی ورلڈ ہیز چینجڈ لکھا جا چکا تھا۔ کریمٹ نے صدر آئزن ہاور سے ملاقات کی۔ اس نے ایک لمبی سانس لی اور کہا: جناب صدر میں نے یہ عظیم کارنامہ سر انجام دے دیا۔ لیکن میں ایک بات گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ صدرامریکہ نے گہری سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا۔ وہ کیا؟ کریمٹ نے پوری سنجیدگی سے کہا:دنیا کے کسی بھی بڑے آپریشن سے پہلے ہمیں اپنے حدود قیود کا اندازہ کرلینا چاہئیے۔ کیونکہ ہم خواہ کتنے ہی ریسورس فل کیوں نہ ہوں ہم کسی صورتحال سے فائدہ تو اٹھا سکتے ہیں لیکن کوئی صورتحال پیدا نہیں کر سکتے"۔ ایرانیوں کے اس ہیرو کو کریمٹ روز ویلٹ نے نہیں خود ایرانیوں نے مارا۔ خدا کی قسم اگر ایرانی نہیں چاہتے تو تہران میں دنیا کا کوئی کریمٹ کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ خواہ آئزن ہاور خود دنیا کی تمام فوجوں کے ساتھ خود ہی وہاں کیوں نہ چلا جاتا۔
جی ہاں یہ 1954کا واقعہ ہے۔ جب دوسری جنگ عظیم کے سارے زخم ابھی ہرے تھے۔ برما کے محاذوں پر توپوں کا نشانہ بننے والے گورے فوجیوں کی بیوائیں لندن، پیرس اور بون میں عصمت فروشی کا دھندہ کرتی تھیں۔ جرمنی کی فیکٹریوں میں پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ جاپان ناگاسا کی اور ہیرو شیما کے کھنڈرات سے عبرت کی راکھ چن رہا تھا۔ چین افیونچیوں کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ عرب صحرامیں کھوئے ہوئے اونٹ تلاش کررہے تھے۔ اور روس اپنے عوام کو قطار بنانے کا آرٹ سکھا رہا تھا۔ جی ہاں اس وقت امریکہ دنیا کی جی ڈی پی کے 60فیصد کا مالک تھا۔ اس کی سڑکیں شیشے کی طرح چمکتی تھیں۔ اس کی عمارتیں آسمان کو بوسہ دیتی تھیں اور اس وقت امریکی صدر صحیح معنوں میں دنیا کا مالک تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کا شاطر ترین مشیر مسلم ورلڈ کو پیچھے دھکیلنے کے باوجود بڑے دعوے سے کہتا ہے۔ ہم کسی صورتحال کا فائدہ تو اٹھا سکتے ہیں۔ خود صورتحال پیدا نہیں کر سکتے اور پھر دنیا کی سفارتی تاریخ نے گواہی دی۔ مشرق سے مغرب تک حکمرانی کرنے والا امریکہ سمندری چٹانوں پر کھڑے چھوٹے سے کیوبا کو فتح نہ کر سکا۔ اس وقت صحرا کی ریت میں ہواؤں کے رحم وکرم پر قائم لیبیا کو مسخر نہ کر سکا۔ انقلاب کے بعد اپنے تمام تر جبر کے باوجود ایران کو سرنگوں نہ کر سکا۔ اپنی ساری عسکری طاقت کے باوجود ویت نام کی نہتے جنگلیوں کوقابو نہ کر سکا اور جب ان تمام فائلوں پر سرخ ربن چڑھانے کا وقت آیا تو ان کے اوپر لکھ دیا گیا۔ کریمٹ فارمولے کے مطابق ہم کوئی صورتحال پیدا نہیں کر سکتے۔
ذرا آگے بڑھیں کیا امریکہ مسلم دنیا میں پھیلے ہوئے اپنے ان لاکھوں ایجنٹوں کے باوجود اپنا چار دہائیوں سے زیادہ وقت کا ریکارڈ کھرچ سکتا ہے۔ یہ ٹریک ریکارڈ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ جب اسرائیلی طیاروں نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر بم برسائے تو امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہم دنیا کا امن پامال کرنے والے عراق کی حمایت نہیں کر سکتے لیکن جب اسی عراق کی توپیں ایرانی بارڈر پر گاڑی گئیں تو نہ صرف امریکہ نے اسے انتہائی مہلک اسلحہ دیا بلکہ وہ کیمیائی ہتھیار بھی مہیا کیے، جنہوں نے کردوں کی پوری نسل معذور بنا دی اور پھر جب صدام ایران سے منہ موڑ کر اچانک امریکی مفادات کے سامنے کھڑا ہو گیا، تو یہی امریکہ پوری دنیا کی عسکری قوت کے ساتھ عراق پر چڑھ دوڑا اور دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ جب پورا یورپ یورینیم کے دور سے پلاٹونیم کے دور میں داخل ہوا۔ تو پاکستان نے اسلامی بم بنانے کا اعلان کر دیا تو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے لاہور ائیر پورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں اس بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، جس نے 1970ء میں انتخابی مہم کے دوران موچی دروازے پر ہزاروں لوگوں کے جلسے میں اعلان کیا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔ اس کے چھ سال بعد ہنری کسنجر نے یہ بات کہی۔"تمہارا خیال ہے کہ تم تباہی کی اس ٹیکنالوجی کو پورے عرب میں پھیلا دو گے۔ نہیں مسٹر پرائم منسٹر ہم تمہیں دنیا میں عبرت ناک مثال بنا دیں گے"۔ پھر اربوں لوگوں نے دنیا کو اس وقت بدلتے دیکھا جب نیو یارک کے ٹوئن ٹاور پر مسافر طیاروں کے ٹکرانے کے بعد امریکہ نے القاعدہ کی کارروائی قرار دیتے ہوئے، اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کی آڑ میں افغانستان پر دھاوا بول دیا۔
اسی اسامہ بن لادن کے خلاف جو روس کے افغانستان پر قبضے کے بعد امریکیوں کا ہیرو تھا۔ جو اس جنگ میں امریکیوں کی جنگی حکمت عملی کا مرکزی آرکیٹکٹ تھا۔ اس ملک پر سوویت یونین کے جبری قبضے اور پھر روسیوں کی پسپائی کے بعد غربت، مسافرت، مظلومیت اور بے مقصدیت کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ اس کے چہرے پر گزرے وقت کی خوشحالی حال کا عزم اور مستقبل کی روشنی نہیں تھی۔ اس کے پہاڑوں، میدانوں، شہروں اور بستیوں پر جس طرح بارود اور ڈیزی کٹر کی بارش کی گئی، بیس برس کی کوشش اور تمام تر جتن کر گزرنے کے بعد امریکی اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں اب واپس لوٹ جانا چاہئیے۔ بالآخر انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جس بستی سے ایک بار موت گزر جائے وہاں زندگی کو نمو کیلئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ افغانی عوام کی ایک غالب اکثریت سمجھتی ہے کہ اب کبھی افغانستان آباد نہیں ہوگا۔ اندرونی لڑائیاں شروع ہو چکی ہیں طالبان ابھر رہے ہیں۔ انہوں نے بہت بڑے علاقے پر دیکھتے ہی دیکھتے قبضہ کر لیا ہے، نئے اندیشے اور خدشات جنم لے رہے ہیں۔ کچھ خفیہ معاہدے ہو رہے ہیں، کچھ پر اسرا رکاروائیاں عمل میں آرہی ہیں، کچھ معاملات میں نئی راہیں تلاش ہو رہی ہیں، بظاہر انڈر اسٹینڈگ میں ایک سرا دوسرے سے مختلف دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن یہ صاف نظر آرہا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔
مشرقی وسطی سے لیکر افغانستان تک غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ امریکی، چینی، روسی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفادات ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ ایسے میں کیا ہونے والا ہے پاکستان کے لئے کیا خطرات اور مشکلات ہو سکتی ہیں؟ بات اب عمران خان کےnot Absolutely اور More Do Not سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں پاکستان اور افغانستان میں کیا ہونے جارہا ہے۔ خطرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ چوائن لائی نے کہا تھا: 21ویں صدی ہماری ہوگی۔ ہم ایسے ہی چلتے رہے تو چین میں غربت کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ فرانس کے مرد آہن چارلس ڈیگال نے کہا تھا:کہ امریکی اپنا بین الاقوامی تسلط قائم کرنے کے لیے کھیل کے تمام قواعد کو پامال کر دیں گے لیکن انہیں ہر جگہ ہزیمت اٹھانی پڑے گی اور ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ء میں کہا تھا:ہمیں تیار رہنا چاہئیے کیونکہ اسلامی شدت پسند شاہ ایران کا تختہ الٹ دیں گے۔ روس، افغانستان پر حملہ کر دے گا اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھے گی۔